Maktaba Wahhabi

311 - 360
’’وَلَا یَجِبُ التَّتَابُعُ فِيْ الصِّیَامِ لِلْمُتْعَۃِ، لَا فِيْ الثَّلَاثَۃِ، وَلَا فِي السَّبْعَۃِ، وَلَا التَّفْرِیْقُ، لِأَنَّ الْأَمْرَ وَرَدَبِہَا مُطْلَقًا، وَذٰلِکَ لَا یَقْتَضِيْ جَمْعًا وَلَا تَفْرِیْقًا، وَلَا نَعْلَمُ فِیْہِ مُخَالِفًا۔‘‘[1] ’’حج تمتع کے روزوں کو تسلسل یا وقفہ سے رکھنے کی پابندی نہ تین میں ہے اور نہ سات میں، کیونکہ ان کے متعلق حکم بغیر کسی قید کے ہے اور ایسا حکم اکٹھے رکھنے کا تقاضا کرتا ہے اور نہ ہی جدا جدا۔ ہمارے علم کے مطابق اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔‘‘ سعودی دائمی مجلس برائے علمی تحقیقات و افتاء نے اپنے ایک فتویٰ میں تحریر کیا ہے: ’’یَجُوْزُ أَنْ تُصَامَ سَبْعَۃُ الْأَیَّامِ الْمَذْکُوْرَۃُ فِيْ قَوْلِہِ {وَسَبْعَۃٍ إِذَا رَجَعْتُمْ} مُتَتَابِعَۃً أَوْ مُتَفَرِّقَۃً۔‘‘[2] [ارشاد تعالیٰ (اور سات (روزے) جب وہ واپس آئے) میں ذکر کردہ سات روزوں کا مسلسل یا متفرق رکھنا جائز ہے۔] خلاصہ گفتگو یہ ہے، کہ حج تمتع کرنے والے کو کسی مخصوص قسم کی قربانی کا پابند نہیں کیا گیا۔ علاوہ ازیں قربانی میسر نہ آنے پر دس روزوں کو قربانی کا بدل قرار دیا گیا ہے۔ ان دس میں سے صرف تین ایام حج میں اور بقیہ سات وطن واپس آنے پر رکھنے ہیں۔ ایام حج میں ان تین روزوں کے نہ رکھ سکنے کی صورت میں سارے روزے بغیر کسی فدیہ کے وطن واپس آنے پر رکھنے ہیں۔ ان روزوں کے رکھنے میں تسلسل ضروری نہیں۔ فللّٰہ الحمد علی تیسیرہ۔
Flag Counter