Maktaba Wahhabi

356 - 360
غَیْرِ شَيْئٍ۔‘‘[1] ’’کیونکہ وہ بیت (اللہ) کا طواف چھوڑ کر چار میل دور جاتا ہے اور (پھر) وہاں سے آتا ہے اور چار میل سے آنے تک وہ دو سو مرتبہ طواف کرسکتا تھا اور بیت (اللہ) کا طواف کسی بھی دوسری چیز کے لیے چلنے سے افضل ہے۔‘‘ ۲: شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے قلم بند کیا ہے: ’’وَالْإِکْثَارُ مِنَ الطَّوَافِ بِالْبَیْتِ مِنَ الْأَعْمَالِ الصَّالِحَۃِ، فَہُوَ أَفْضَلُ مِنْ أَنْ یَخْرُجَ الرَّجُلُ مِنَ الْحَرَمِ وَیَأْتِيَ بِعُمْرَۃٍمَکِّیَّۃٍ، فَإِنَّ ہٰذَا لَمْ یَکُنْ مِنْ أَعْمَالِ السَّابِقِیْنَ الْأَوَّلِیْنَ مِنَ الْمُہَاجِرِیْنَ وَالْأَنْصَارِ، وَلَا رَغَّبَ فِیْہِ النَّبِيُّ صلي اللّٰه عليه وسلم لِأُمَّتِہِ، بَلْ کَرِہَہُ السَّلَفُ۔‘‘[2] ’’بیت (اللہ) کے زیادہ طواف کرنا اعمال صالحہ سے ہے اور وہ (حدودِ) حرم سے نکل کر واپس آکر عمرہ مکیہ کرنے سے افضل ہے، کیونکہ ایسا (یعنی عمرہ مکیہ) کرنا مہاجرین و انصار میں سے سابقین اوّلین کے اعمال میں سے نہیں تھا اور نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو اس کے کرنے کی ترغیب دی، بلکہ سلف (صالحین) کے نزدیک یہ مکروہ تھا۔‘‘ ۳: امام ابن قیم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے عمرے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے تحریر کیا ہے: ’’عمرہ مکیہ کی اساس یہی ہے۔ اسے مستحب کہنے والوں کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی دلیل نہیں، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ حج
Flag Counter