Maktaba Wahhabi

138 - 256
’’م‘‘ کا فرق ہے جس کی تائید میں شعروں کی بھرمار کی جاتی ہے: ع ہم نے مسجد کے منبر پر اک’’احمد بے میم ‘‘ دیکھا ع جہاں میں شکلِ احمد بن کے وہ نورِ قدیم آیا ع اوہ بے صورت، وچ صورت دے بن آپ محمد آیا اے (نعوذُ باللّٰہ مِن ذٰلک) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نور کہنے کی اس افراط اور غُلو کی بنیاد درجِ ذیل آیت پر رکھی جاتی ہے جو متشابہات میں سے ہے: ’’بے شک تمھارے پاس اللہ کی طرف سے نور اور واضح کتاب آچکی ہے۔‘‘[1] اس سے اکثر حضرات نے تو یہ مُراد لی ہے کہ قرآن مجیدکو نور کہا گیا ہے اور واو برائے عطف تفسیر ہے، قرآن مجید ہی میں دوسری جگہ پر قرآن کو نور کہا گیا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ اور اس نور کی پیروی کی جو اتارا گیا ہے اس رسول کے ساتھ۔‘‘[2] اس سے معلوم ہوا کہ نور سے مراد قرآن مجید ہی ہے۔ لیکن صاحب ضیائُ القرآن اس کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’نور سے مُراد یہاں ذاتِ پاکِ محمد مُصطفٰے علیہ الصلاۃ وَالسلام ہے جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے حق کو روشن کردیا۔ اسلام کو ظاہر فرمایا۔ شرک کو نیست ونابود کیا۔‘‘ صاحبِ ضیاء ُ القرآن کی تاویل کے مطابق بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نوع تبدیل نہیں ہوگئی کہ
Flag Counter