Maktaba Wahhabi

115 - 263
تجزیہ: اللہ تعالیٰ کے اپنے عرش پر استواء کی یہ تفسیر کہ وہ اپنے عرش پر اس طرح مستوی ہے جیسے اس کے جلال کے شایان شان ہے، دراصل سلف صالحین کی تفسیر ہے۔ امام المفسرین ابن جریر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ استواء کے معنی علو وارتفاع کے بھی ہیں جیسے کوئی کہتا ہے کہ(اِسْتَویٰ فُـلَانٌ عَلٰی سَرِیْرَهِ)’’فلاں اپنے تخت پر مستوی ہے‘‘ تو اس سے مراد علوہوتا ہے اور انہوں نے ارشاد باری تعالیٰ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾’’رحمن نے عرش پر قرار پکڑا۔‘‘[1]کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ رحمن اپنے عرش پر مرتفع اور بلند ہے، سلف سے اس کے مخالف تفسیر منقول نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لغت میں استواء کا لفظ کئی طرح سے استعمال ہوتا ہے، مثلاً: ٭ اگر یہ مطلق اور غیر مقید استعمال ہو تو اس کے معنی کمال کے ہوتے ہیں، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهُ وَ اسْتَوٰٓی﴾’’اور جب موسیٰ اپنی جوانی کو پہنچے اور(عقل وشعور میں)کامل ہوگئے۔‘‘[2] ٭ واو کے ساتھ مل کر استعمال ہو تو یہ برابری کے معنی میں ہوتا ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے:(اِسْتَوَی الْمَاءُ وَالْعَتَبَة)’’پانی اور دہلیز برابر ہوگئے۔‘‘ ٭ اِلیٰ کے صلہ کے ساتھ مل کر استعمال ہو تو یہ قصد وارادہ کے معنی میں ہوتا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ثُمَّ اسْتَوٰٓی اِلَی السَّمَآءِ﴾’’پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا۔‘‘[3] ٭ علیٰ کے صلہ ساتھ مل کر استعمال ہو تو یہ علو وارتفاع کے معنی میں ہوتا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾’’رحمن نے عرش پر قرار پکڑا۔‘‘[4] بعض سلف کا یہ مذہب بھی ہے کہ استواء کا لفظ اِلیٰ اور عَلیٰ دونوں کے ساتھ استعمال ہونے کی صورت میں ارتفاع وعلو کے معنی میں ہوتا ہے، جیسا کہ بعض کا مذہب یہ ہے کہ عَلیٰ کے ساتھ استعمال کی صورت میں یہ صعود اور استقرار کے معنی میں ہوتا ہے۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے ارشاد باری تعالیٰ:﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾کی تفسیر خارجہ بن مصعب سے اپنی کتاب(الصواعق)میں یہ نقل کی ہے کہ یہاں استواء کا لفظ بیٹھنے کے معنی میں ہے۔[5]
Flag Counter