Maktaba Wahhabi

154 - 263
میں نمازیں پڑھی جاتی رہیں گی ‘جب تک اس کے قائم کیے ہوئے مدرسہ میں دینی تعلیم ہوتی رہے گی‘جب تک اس کی لکھی ہوئی تفسیر‘حدیث یا فقہی احکام پر مشتمل کوئی کتاب پڑھی جاتی رہے گی‘اس کی نیکیوں کا سلسلہ جاری رہے گا اور اس کے نامۂ اعمال میں نیکیاں لکھی جاتی رہیں گی‘لہٰذا اس کی نیکیوں کا اجر عطا فرمانے کے لیے اور ظالم ومجرم کے مظالم اور جرائم پر سزا دینے کے لیے ضروری ہے کہ اس دنیا کو ختم کر دیا جائے‘کیونکہ جب تک دنیا ختم نہیں ہوگی نہ برے اعمال کا سلسلہ ختم ہوگا اور نہ نیک اعمال کا سلسلہ ختم ہو گا‘اس لیے ضروری ہوا کہ اس دنیا کو قیامت قائم کر کےختم کر دیا جائے اور پھر ایک نیا جہاں آباد کیا جائےظالم اور مجرم کو زندہ کیا جائے تاکہ اس کے تمام مظالم اور جرائم پر اس کو مکمل سزا دی جائےاور نیک مسلمانوں کو ان کی تمام نیکیوں کی جزا دی جائے اور اجر وثواب عطا کیا جائے‘اس لیے قیامت کا وقوع بھی ضروری ہے اور مُردوں کو زندہ کرنا بھی ضروری ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے تقاضے پورے ہوں اور اس کے عدل وانصاف کا ظہور ہو‘پھر میدانِ محشر کا قائم ہونا بھی ضروری ہے تاکہ جن مسلمانوں سے صغیرہ یا کبیرہ دانستہ یا نا دانستہ گناہ سر زد ہو گئے تھے اور اُن گناہوں پر نادم اور شرمسار ‘اُن کے حق میں انبیاء اور اولیاء کرام شفاعت کریں تاکہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت عامہ کا ظہور ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کےمقرب بندوں کی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وجاہت اور مقبولیت کا اظہار ہو کہ جو گناہ گار مسلمان سزاؤں کے مستحق تھے اور دل میں ڈرتے تھے کہ آج نہ جانے ہماری کتنی سخت گرفت ہوگی پھر جب مقبولانِ بارگاہ اور سید المقبولین سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت فرمائیں گےتو اللہ تعالیٰ سیدنامحمد صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر مقبولانِ بارگاہ کی عزت اور وجاہت ظاہر فرمانے اور بارگاہِ الوہیت میں اُن کا مقام اور عظمت ظاہر فرمانے کے لیے ان گناہ گاروں کو بخش دے گا اور نہ صرف بخش دے گا بلکہ اپنے انعام واکرام سے او کو جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے گا۔[1] 7۔کفار مکہ کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں نازل کیے ہوئے معجزات کا شدت سے انکار اور اللہ کا ان کو اس انکار کی سزا دینااز مولانا الوانی رحمہ اللہ: وَمَا تَأْتِيهِمْ سے يَسْتَهْزِئُونَ تک منکرین پر زجر و شکوہ ہے اور آیات سے دلائل توحید مراد ہیں جو قرآن میں مذکور ہیں بقرینہ مَا یَا تِیْھِمْ مّنْ ذِکْرٍ مِّنْ رَّبِّھِمْ مُّحْدَثٍ تا فَھُمْ مُّعْرِضُوْنَ(انبیاء ع 1، 2)۔ فَقَدْ کَذَّبُوْا بِالْحَقِّ حق کے تین معنی ہیں۔ اولَ اظہار حق، دوم سچی بات، سوم ظاہر اور واضح بات۔ یہاں تیسرا معنی مراد ہے۔ جب انہوں نے ایک ایسی حقیقت کا انکار کردیا جو بالکل واضح اور ظاہر ہے تو وہ عذاب کے مستحق ہیں جیسا کہ فَسَوْفَ یَاتِیْھِمْ کی فا فصحیہ ہے اس پر دال ہے۔اور کہتے ہیں کہ انباء سے دنیا اور آخرت کا عذاب مراد ہے۔ المراد ما یعم ذلک(العقوبات العاجلة والعقوبات التی تحل بهم فی الاخرة
Flag Counter