Maktaba Wahhabi

577 - 1201
پیدا ہونے سے پہلے رسائل، وفود، اور زیارتوں کا باہم تبادلہ کرتے رہنا اور بات چیت کے ذریعہ سے صلح کی کوشش جاری رکھنا۔[1] ٭ مسلمانوں کے نزدیک ایفائے عہد دین اسلام کا بنیادی اصول ہے جس کی پاس داری کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔[2] امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک ایفائے عہد وپیمان محض ایک نظریہ نہ تھا کہ جو صرف کاغذ تک محدود ہوتا، بلکہ اپنی عملی زندگی میں اسے برتتے تھے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے متعدد قرآنی آیات میں ایفائے عہد کا حکم دیتے ہوئے، بدعہدی کرنے کو حرام ٹھہرایا ہے، فرمایا: وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّـهِ إِذَا عَاهَدتُّمْ وَلَا تَنقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّـهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا ۚ إِنَّ اللَّـهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ ﴿٩١﴾ (النحل: 91) ’’اور اللہ کا عہد پورا کرو جب آپس میں عہد کرو اور قسموں کو ان کے پختہ کرنے کے بعد مت توڑو، حالانکہ یقینا تم نے اللہ کو اپنے آپ پر ضامن بنایا ہے۔ بے شک اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔‘‘ اور فرمایا: وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ ۖ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا ﴿٣٤﴾ (الاسرائ:34) ’’اور عہد کو پورا کرو، بے شک عہد کا سوال ہوگا۔‘‘ 5۔ ملک کی داخلی سلامتی کی حفاظت: ملک کی داخلی سلامتی صاف ستھری سیاست پر منحصر ہے، چنانچہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک گورنر کے نام لکھا تھا کہ حمد وصلاۃ کے بعد! تمھاری ریاست کے کچھ زمینداروں نے تمھارے خلاف سختی، قساوت، تحقیر اور ظلم وزیادتی کی شکایت کی ہے۔ میں نے شکایت پر غور کیا، انھیں اس قابل تو نہیں پایا کہ وہ قریب کیے جاسکیں اس لیے کہ یہ مشرک ہیں اور یہ بھی مناسب نہیں کہ بھگا دیے جائیں، یا ظلم کیے جائیں اس لیے کہ یہ لوگ ہمارے ذمہ میں ہیں۔ لہٰذا تم نرمی کا لباس زیب تن کرلو اور ان کے ساتھ معمولی سختی کو بھی شامل کرلو، ان کے ساتھ کبھی سختی اور کبھی نرمی کا برتاؤ کیا کرو، کبھی قریب کرو، اور کبھی دور کرو، ان شاء اللہ۔ [3] درحقیت ملک کی داخلی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے یہ سیاست اختیار کی جاتی ہے، لیکن اگر اس سیاست میں کوئی رکاوٹ یا مشکل حائل ہونے لگے تو گورنر پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اسے حل کرنے کے لیے معتدل طریقوں کو استعمال کرے نہ کہ قوت اور عوام پر طاقت آزمائی کی سیاست کرے۔[4]
Flag Counter