Maktaba Wahhabi

142 - 263
ہے‘پس عیسٰی علیہ السلام بغیر باپ کے بشر تھے۔ اور اس آیت میں فرمایا ہے:’’روح منہ‘‘یعنی حضرت عیسٰی علیہ السلام باقی ارواح کی طرح ایک روح ہیں‘لیکن اللہ تعالیٰ نے اُن کی تعظیم کو ظاہر فرمانے کےلیے اس روح کی اپنی طرف نسبت فرمائی یعنی حضرت عیسٰی علیہ السلام اس کی طرف سے روح ہیں‘دوسرا قول یہ ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام نے حضرت مریم کے چاک ِ گریبان میں روح پھونکی تھی تو حضرت مریم اللہ کے اذن سے حاملہ ہوگئیں‘اس لیے حضرت جبریل علیہ السلام کے پھونکنے کو روح سے تعبیر فرمایا اور اس کی اپنی طرف نسبت اس لیے فرمائی کہ حضرت جبریل علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے پھونک ماری تھی‘تیسرا قول یہ ہےکہ ’’روح منه‘‘کا معنی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت ہیں کیونکہ جو حضرت عیسٰی علیہ السلام پر ایمان لایا اور اس نے آپ کی پیروی کی‘آپ اس کے لیے رحمت ہیں‘اس کا چوتھا معنی یہ کہ روح سے مراد وحی ہے یعنی حضرت مریم کی طرف وحی سے بشارت دی گئی تھی‘یا حضرت جبریل علیہ السلام کی طرف وحی سے بشارت دی گئی تھی‘اور پانچواں قول یہ ہے کہ ’’روح منہ‘‘سے مراد حضرت جبریل علیہ السلام ہیں۔ایک حدیث میں آتا ہے’’ہم سےصدقہ بن فضل نےبیان کیا،کہا ہم سےولید نے بیان کیا، ان سے اوزاعی نے بیان کیا کہ مجھ سے عمیر بن ہانی نے بیان کیا،کہا کہ مجھ سےجنادہ بن ابی امیہ نےبیان کیا اوران سے عبادہ نےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا،جس نےگواہی دی کہ اللہ کےسوا اورکوئی معبود نہیں، وہ واحدہ لاشریک ہےاوریہ ہےکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کےبندے اوررسول ہیں اور یہ عیسیٰ علیہ السلام اس کےبندے اوررسول ہیں اور اس کا کلمہ ہیں،جسے پہنچادیا تھا اللہ نےمریم تک اور ایک روح ہیں اس کی طرف سےاوریہ کہ جنت حق ہےاوردوزخ حق ہے تواس نےجوبھی عمل کیا ہوگا(آخر)اللہ تعالی اسے جنت میں داخل کرے گا۔ولید نےبیان کیا کہ مجھ سے ابن جابر نےبیان کیا، ان سےعمیر نےاورجنادہ نے اوراپنی روایت میں یہ زیادہ کیا(ایسا شخص)جنت کےآٹھ دروازوں میں سے جس سے چاہے(داخل ہوگا)‘‘ [1]، [2] تجزیہ: مذکورہ آیت سرے مراد یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندوں میں سے ایک بندے اور اس کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہیں اور اس کا وہ کلمۂ بشارت ہیں جو اس نے مریم علیہ السلام کی طرف بھیجا تھا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے انہیں اس کلمے کے ذریعے سے پیدا فرمایا جس کے ساتھ اس نے جبریل علیہ السلام کو مریم علیہ السلام کی طرف بھیجا اور جبریل نے اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کے اذن سے ان میں روح پھونک دی تھی اور اس طرح عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حکم سے پیدا ہوگئے تھے۔ اس طرح پیدائش کی وجہ سے عیسیٰ کو کلمۃ اللہ اور روح اللہ کہا جاتا تھا کیونکہ آپ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے۔ آپ اللہ تعالیٰ کے کلمہ’کن‘ سے اور اس روح سے پیدا ہوئے تھے
Flag Counter