Maktaba Wahhabi

182 - 263
میں ایک آدمی تھا جس کو اسی طرح ایک زخم لگا تھا۔ اس نے کہا: میں شرم و حیا کی بنا پر اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چھپا رہا تھا، پھر میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول ! تو ہم کس پیا کریں ؟ آپ نے فرمایا:’’چمڑے کی ان مشکوں میں پیو جن کے منہ(دھاگے وغیرہ سے)باندھ دیے جاتے ہیں۔ ‘‘ اہل وفد بولے: اے اللہ کے رسول ! ہماری زمین میں چوہے بہت ہیں، وہاں چمڑے کے مشکیزے نہیں بچ پاتے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’چاہے انہیں چوہے کھا جائیں، چاہے انہیں چوہے کھا جائیں، چاہے انہیں کھا جائیں۔‘‘ کہا:(پھر)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد القیس کے اس شخص سے جس کے چہرے پر زخم تھا، فرمایا: ’’تمہارے اندر دو ایسی خوبیاں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے: عقل اور تحمل۔ ‘‘[1] (3) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ نے فرمایا کہ سات طرح کے آدمی ہوں گے۔ جن کو اللہ اس دن اپنے سایہ میں جگہ دے گا۔ جس دن اس کے سایہ کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔ اوّل انصاف کرنے والا بادشاہ، دوسرے وہ نوجوان جو اپنے رب کی عبادت میں جوانی کی امنگ سے مصروف رہا، تیسرا ایسا شخص جس کا دل ہر وقت مسجد میں لگا رہتا ہے، چوتھے دو ایسے شخص جو اللہ کے لیے باہم محبت رکھتے ہیں اور ان کے ملنے اور جدا ہونے کی بنیاد یہی للٰہی(اللہ کے لیے محبت)محبت ہے، پانچواں وہ شخص جسے کسی باعزت اور حسین عورت نے(برے ارادہ سے)بلایا لیکن اس نے کہہ دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں، چھٹا وہ شخص جس نے صدقہ کیا، مگر اتنے پوشیدہ طور پر کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہیں ہوئی کہ داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔ ساتواں وہ شخص جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور(بے ساختہ)آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔[2] 2۔’’یا ايهاالناس اعبدوا ربکم‘‘ کی تفسیر از مولانا الوانی رحمہ اللہ: عبادت کے معنی " غایت خضوع " اور " انتہائی عاجزی کے ہیں۔ اس لفظ کا جامع مفہوم علامہ ابن قیم کی زبانی سنئے۔ العبادة عن الاعتقاد والشعور بان للمعبود سلطة غيبية(ای فی العلم والتصرف)فوق الاسباب یقدر بها علی النفع والضرر فکل دعاء وثناء وتعظیم ینشا من هذا الاعتقاد فهی عبارة[3] یعنی یہ اعتقاد اور شعور کہ ہمارے حالات جاننے اور ان میں باختیار خود تصرف کرنے میں ہمارے معبود کا مافوق الاسباب غیبی قبضہ ہے۔ اور اسی اعتقاد کے تحت اپنے معبود کو پکارا جائے، اس کی حمد وثناء کی جائے، رکوع و سجود یا نذرونیاز سے اس کی تعظیم بجا لائی جائے تو یہ سب کچھ عبادت ہے، تو یہ عبادت بجمیع اقسامہ وانواعہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے، اور اس میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ یہاں عبادت سے، دعا، اور پکار مراد ہے۔ آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کا ارشاد ہے کہ معبودوں کو خدا کے یہاں شفیع غالب سمجھتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے تین جگہ دعویٰ توحید کو عقلی دلائل سے مدلل فرما کر بالترتیب شرک کی مذکورہ بالا تینوں قسموں کی نفی فرمائی ہے۔ عبادت کے معنی "غایت خضوع"اور "انتہائی عاجزی کے ہیں۔ اس
Flag Counter