Maktaba Wahhabi

217 - 263
وہ ابحاث جو صرف تفسیر تبیان الفرقان میں ہیں: 1۔اللہ کی مثل کا ہونا لازم آتا ہےاز سعیدی رحمہ اللہ: ’’فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا‘‘[1]اس آیت کا ظاہر معنی یہ ہے کہ اگر بنی اسرائیل اس کی مثل پر ایمان لے آئے جس پر تم ایمان لائے ہو تو وہ ہدایت یافتہ ہوں گے‘اس پر یہ اشکال ہے کہ مسلمان اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے تھے تو اس کی مثل پر ایمان لانے کا معنی یہ ہے کہ بنی اسرائیل اللہ کی مثل پر ایمان لائیں‘حالانکہ اللہ تعالیٰ کی تو کوئی مثل نہیں ہے‘ارشاد باری ہے:’’لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ‘‘[2](اس اللہ کی مثل کوئی چیز نہیں ہے)۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں ’’با‘‘زائدہ ہے اور مثل کا لفظ مصدر محذوف کی صفت ہے اور اصل عبارت یوں ہے’’ فَإِنْ آمَنُوا إِيمَاناً مِثلَ إِيمَانِكُم‘‘يعنی اگر وہ تمہارے ایمان کی مثل ایمان لائے تو وہ ہدایت یافتہ ہوں گے اور’’با‘‘کا زائدہ ہونا بعید نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے’’وَالَّذِينَ كَسَبُوا السَّيِّئَاتِ جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا ‘‘[3]اور اصل عبارت وں ہے’’جَزَاءُ سَيِّئَةٍ مِثْلِهَا‘‘یعنی برائی کا بدلہ اسی کی مثل برائی ہے جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا ہے’’وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا‘‘[4]۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں’مثل‘ کا لفظ زائد ہے‘اس کی تائید حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قراءت سے ہوتی ہے‘انہوں نے اس آیت کو یوں پڑھا’’فَإِنْ آمَنْتُمْ مَا آمَنْتُمْ بِهِ‘‘اور تيسرا جواب یہ ہے کہ ’’ما‘‘’الذی‘ کے معنی میں ہے‘اس کی تائید حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی قراءت سے ہوتی ہے‘انہوں نے اس آیت کو اس طرح پڑھا ’’ ’’فَإِنْ آمَنُوا بِالَّذِى آمَنْتُمْ بِهِ۔‘‘[5] 2۔شیخ ابن تیمیہ کا شرک کی دو قسموں کا اختراع کرنا ‘شرک فی الالوہیۃ اور شرک فی الربوبیۃ: شیخ تقی الدین احمد بن تیمیہ لکھتے ہیں: شرک کی دو قسمیں ہیں: ایک شرک فی الالوہیۃ اور دوسری قسم شرک فی الربوبیۃ ہے۔شرک فی الالوہیۃ کی تعریف
Flag Counter