Maktaba Wahhabi

41 - 263
إِنَّ اللّٰهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ[1] ’’تم سے پوچھتے ہیں کہ کون کون سی چیزیں ان کے لیے حلال ہیں(ان سے)کہہ دو کہ سب پاکیزہ چیزیں تم کو حلال ہیں اور وہ(شکار)بھی حلال ہے جو تمہارے لیے ان شکاری جانوروں نے پکڑا ہو جن کو تم نے سدھا رکھا ہو اور جس(طریق)سے خدا نے تمہیں(شکار کرنا)سکھایا ہے(اس طریق سے)تم نے ان کو سکھایا ہو تو جو شکار وہ تمہارے لئے پکڑ رکھیں اس کو کھا لیا کرو اور(شکاری جانوروں کو چھوڑتے وقت)خدا کا نام لے لیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو۔ بےشک خدا جلد حساب لینے والا ہے‘‘ اس آیت کی تفسیر میں تین اقوال ہیں۔ 1۔ امام زہری کہتے ہیں کہ صحابہ کرام اکثر آنحضرت صلی اللہ عیہ وسلم سے سوال کیا کرتے تھے کہ ان کے لیے کونسی چیزیں حلال ہیں اور کونسی حرام تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ 2۔ عدی بن حاتم اور زید ابن مہلہل نے آپ سے دریافت کیا کہ ہم کتوں اور بازوں سے شکار کرتے ہیں۔ بعض جانوروں کو ہم زندہ پا لیتے اور ذبح کرلیتے ہیں۔ اور بعض ہمارے پہنچنے سے پہلے مر جاتے ہیں۔ ان میں سے ہمارے لیے کیا حلال ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی جو اصل سوال کے جواب سے زائد پر مشتمل ہے۔ 3۔ یہ آیت ابتدائے سورت یعنی اُحِلَّتْ لَکُمْ بَھِیْمَۃُ الْاَنْعَامِ سے متعلق ہے اس میں اجمال تھا یہاں اس کی تفصیل ہے۔یہ آخری قول سب سے زیادہ مناسب ہے۔[2] سورۃ یوسف کے شان نزول میں مولانا الوانی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں: ’’علماء یہود نے مشرکین سے کہا کہ محمد سے پوچھو آل یعقوب شام سے مصر کیسے منتقل ہوئی اور حضرت یوسف کا قصہ کیا ہے اس پر یہ سورت نازل ہوئی۔حضرت سعدبن ابی وقاص سے روایت ہے کہ صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی آپ ہمیں عبرت آموز قصہ سنائیں اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ یوسف نازل فرمائی۔‘‘ تفسیر جواہر القرآن میں اسرائیلی روایات کا تذکرہ بالنقد اور بغیر نقد: مولانا الوانی رحمہ اللہ نے اسرائیلیات سے اجتناب کیا ہے کہیں کہیں اسرائیلیات بھی ذکر کی ہیں اور پر زور دار انداز سے رد کیا ہے۔کہیں کہیں بغیر رد کے بھی تفسیر جواہر القرآن میں اسرائیلیات کا ذکر موجود ہے۔
Flag Counter