Maktaba Wahhabi

40 - 263
مولانا الوانی رحمہ اللہ کا شان نزول سےمتعلق تفسیر جواہر القرآن میں اسلوب: یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ نزول قرآن کے وقت اکثر ایسا ہی ہوا ہےکہ کوئی واقعہ پیش آگیا اس کا حکم معلوم کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تواس بارےمیں آیتیں نازل ہوگئیں جن سے اس واقعہ کا حکم معلوم ہوگیا۔لیکن ایسی آیتون کا حل اور ان کی تفسیر اس واقعہ پر منحصر نہ ہوگی کیونکہ مشہور قائدہ ہے ’’العبرة لعلوم اللفظ لا لخصوص المعنٰی‘‘عموم لفظ معتبر ہے نہ کہ خصوص معنٰی اگر ایسی آیتوں کو ان واقعات کے سے مخصوص کر دیا جائے تو اس سے قرآن مجید سمجھنے میں بڑی دقت پیش آئے گی۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں: ’’اضرالاشياءفى فهم القرآن شان النزول‘‘’’فہم قرآن مجید میں سب سے زیادہ نقصان دہ چیز شانِ نزول ہے۔‘‘ علاوہ ازیں اکثر واقعات ظنی ہوتے ہیں جو بنی اسرائیلی فطرت لوگوں کے مشہور کردہ ہوتے ہیں تفسیر خازن وغیرہ میں ایسے واقعات بکثرت مذکور ہیں اس لیے آیات کا حل شانِ نزول پر موقوف نہیں ہے۔بلکہ سیاق واسباق کے پیش نظر آیتوں کو حل کرنا چاہیے اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ شانِ نزول کے تمام واقعات قابل رد اور جھوٹے ہیں اور تفسیر میں ان کو ذکر کرنا جائز نہیں ہے۔[1] شان نزول کا مطلب یہ نہیں کہ پہلے فلاں واقعہ ہو چکا تھا اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی کیونکہ کئی واقعات ہیں جن کا حکم اس آیت کا مفہوم سمجھنےمیں بڑی اُلجھنیں پیدا ہو جاتی ہیں حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں صحابہ وتابعین کا یہ کہنا کہ یہ آیت فلاں واقعہ میں نازل ہوئی اور یہ آیت فلاں حادثہ میں تو اس کا مطلب یہ ہوتاہےکہ یہ آیت فلاں فلاں واقعہ اور حادثہ کو شامل ہے وہ حادثہ آیت کے نزول سے پہلے پیش آیا ہو یا اس کے بعد[2]۔مولانا الوانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’شان نزول کے ذکر میں جو فنزلت آتا ہے اس میں ’ف‘ تعقیب زمانی کے لیے نہیں ہوتی بلکہ تعقیب ذکری کے لیے ہوتی ہے۔‘‘([3]) ﴿يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ ۖ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۙ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللّٰهُ ۖ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهِ ۖ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۚ
Flag Counter