Maktaba Wahhabi

93 - 263
کو تفصیل سے بیان کر کے فقہ حنفی کو بیان کر چکے ہیں‘ تفسیر تبیان الفرقان میں ایسا سلسلہ نہیں ہے بلکہ تفصیل کے ساتھ فقہ حنفی کا ہی تذکرہ ہے۔ اور اس تفسیر میں مصنف کا مقصد جس قدر ممکن ہو احادیث اور آثار کو پیش کرنا ہے‘ نئے اور تازہ مسائل میں غور وفکر اور اجتہاد کی کافی وسعت اور گنجائش ہے تاہم بعض آزاد خیال علماء نے اس مسئلہ میں کافی افراط وتفریط کی ہے اس لیے مصنف نے ان کے گمراہانہ افکا ر کا محاسبہ کیا ہے اور اختصار اور جامعیت کے ساتھ ان کا مکمل رد کیا ہے۔[1] تفسیر تبیان الفرقان کا منہج واسلوب تفسیر تبیان الفرقان میں سب سے پہلے قرآن مجید کا لغوی اور اصطلاحی معنٰی بیان کیا گیا ہے پھر قرآن مجید کے اسماءکو بیان کیا گیا ہے۔اس کے بعد قرآن مجید کے فضائل کے بارے میں وارد احادیث کو ذکر کیا گیا ہے‘پھر قرآن مجید کے مراحل اور ان کی کیفیت کو بیان کیا گیا ہے اس کے بعد تفسیر اور تاویل کا لغوی واصطلاحی معنٰی اور ان میں فرق کو ذکر کیا ہے۔سورتوں کے نام اور مشمولات کا بیان بھی کیا گیا ہے،فقہی مسائل کا بیان بھی ہے‘پھر قرآن مجید میں ناسخ ومنسوخ کی تحقیق کی گئی اور آزاد خیال مفسرین کی تردید کی گئی ہے کہ جنہوں نے قرآن مجید میں نسخ کے وقوع کا انکار کیا ہے‘پھر سر سید احمدخان کے ان نظریات کا ذکر کیا ہے جو تمام فقہاء اسلام کے مخالف ہیں۔اب ہر ایک کی مثالیں ذکر کی جاتی ہیں: قرآن مجید کا لغوی معنٰی: علامہ ابو الفضل جمال الدین محمدبن مکرّم ابن منظور الافریقی المصری لکھتے ہیں: ’’القرآن‘‘ کا معنٰی ہے’التنزیل العزیز‘[2] ابو اسحاق النحوی نے کہا ہے:جس کلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا اس کا نام کتاب‘قرآن اور فرقان رکھاگیا ہے‘ قرآن کا معنٰی ہے’’الجمع‘‘یعنی جمع کرنا‘قرآن مجید کو قرآن اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں تمام سورتیں جمع ہیں اور قرآن مجید قصص‘امر‘نہی‘وعد‘وعید‘آیات اور سورتیں جمع ہیں اور قرآن کا لفظ غفران اور شکران کی طرح مصدر ہے اور کبھی صلٰوۃ یعنی نماز کو بھی قرآن کہا جاتا ہے کیونکہ نماز میں قرآن مجید کی قراءت ہوتی ہے۔ [3] قرآن مجید کا اصطلاحی معٰنی: علامہ ابو القاسم الحسین بن محمد الراغب الاصفہانی لکھتے ہیں: قرآن مجید کا اسم اس کتاب کے ساتھ مخصوص ہے جو کتاب سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی اور لفظ قرآن اس کتاب کے لیے علم(نام)کی مثل ہے جیسا کہ تورات اس کتاب کو کہتے
Flag Counter