Maktaba Wahhabi

75 - 263
5. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بشر تھے اور ان پر بھی موت وارد ہوئی۔ 6. وہ پیر جو قرآنی احکام پر عمل نہیں کرتےبلکہ شرک وبدعت کا پرچار کرتے ہیں۔پیر کہلانے کے مستحق نہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ پہلے شخض ہیں جس نے یہ باتیں کہیں ہیں۔جب کہ قرآنِ پاک اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ما فوق الفطرت قوتوں کے مالک نہیں اور نہ ہی انہوں نے اس کا کبھی دعوٰی کیا نہ ہی کبھی اس قسم کی تعلیم دی اور قرآن مجیدیہ بھی بتلاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انسان اور بشر تھے بلکہ سید البشر تھے الغرض حزب اللہ خان صاحب لکھتے ہیں کہ مولانا کی صفائی کے لیے ’’جواہر القرآن‘‘ پیش کی گئی مگر اس کے مطالعہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مولانا کو عقیدۂ توحید پر عبور حاصل ہے چنانچہ مقدمہ کے حقائق اورواقعات کو بغور دیکھتے ہوئے ملزم کو سات سال قید بامشقت اور دو سو روپے جرمانہ کی سزا دی جاتی ہے۔([1]) مولانا پیرانہ سالی کے باوجودبادی النظر میں بہت صحت مند نظر آتے تھے۔مگر وہ ایک عرصے سے دل کے مریض چلے آرہے تھے۔ڈاکٹروں نے انہیں کرنے سے منع کر رکھا مگر انہوں نے اس کی کوئی پروا نہیں کی اور دن رات دعوت وتبلیغ میں گزارے اور کہا کرتے تھے کہ موت کا وقت تو مقرر ہے۔جو سانس باقی ہے کیوں نہ قرآن پڑھایا جائے یا توحید کی دعوت دی جائے۔1979ء میں دل کابہت شدید دورہ پڑا اور دورہ دو ماہ تک اسلام آبادکےپولی کلینک میں زیر علاج رہے۔صحت یاب ہوئے تو انگلستان کے طویل تبلیغی سفر پر روانہ ہو گئے۔مارچ 1980ء میں دیوبند میں دورہ پڑا برقت طبی امداد اور اللہ کی رحت سے جان بچ گئی۔اپریل 1980ء میں عمرہ کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ روانہ ہو گئے وہاں سے عرب امارات میں کئی تبلیغی اجتماعات سے خطاب کے بعد دبئی پہنچے تھے کہ دل کا شدید اور جان لیوا دورہ پڑا۔ کئی برسوں سے مولانا رحمۃ اللہ علیہ کا معمول چلا آرہا تھا کہ دورۂ تفسیر شروع کرنے سے پہلے عمرہ کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ جاتے۔چانچہ اپریل 1980ء کے آخری دنوں میں مکہ مکرمہ روانہ ہوئے۔عمرہ کی ادائیگی اور روضۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے بعد بحرین چلے گئے۔جہاں کئی اجتماعات سے خطاب کیا وہاں سے عرب امارات میں ان کے تلامذہ نے کئی تبلیغی پروگرام ترتیب دے رکھے تھے۔چنانچہ آپ نے دبئی کی جامع مسجد شیرازی اور قصیص نمبر 3 کی جامع مسجد میں خطاب کے دوران پوری شرح وبسط سے مسئلہ توحید بیان کیا۔اسی مؤخر الذکر مسجد میں 25 مئی کی رات پونے دو گھنٹے خطاب فرمایا‘اس تقریر کے آغاز میں ہی فرمایا: ’’میرے ساتھی ہوں یا مخالف سبھی جانتے ہیں کہ میں نے اللہ کی توحید کا مسئلہ بیان کرنے میں کبھی مصلحت سے کام نہیں لیا‘ساری عمر اسی طرح گزر گئی۔میری عمر ستتر(77)سال ہو چکی ہے۔اور کیا جی لوں گا اور کتنا جی لوں گا؟موت تو سر پر کھڑی ہے بابا۔ابھی یہاں آنے سے پہلے دل کا شدید دورہ پڑا۔مہینہ بھر ہسپتال میں پڑا رہا۔جب جوانی میں مسئلہ نہیں چھپایا
Flag Counter