Maktaba Wahhabi

76 - 263
تو اب کیا چھپاؤں گا۔موت تو سر پر کھڑی ہے کیا خبر کل ہی موت آجائے‘‘[1] کل من عليها فان: اور كل(اگلے روز)واقعی موت آ گئی۔26مئی1980ء کی رات دبئی کی مرکزی مسجد میں تقریر کا پروگرام تھا۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ منبر کے قریب مجلس علماء میں بیٹھے تھے۔قاری قرآن مجید کی تلاوت کر رہا تھا کہ انہیں سینے میں درد محسوس ہوا وہ دو میزبان ساتھیوں کو ساتھ لے کر چیک اپ کے لیے شیخ راشد ہسپتال لے گئے‘ڈاکٹر مصروفیت کے باعث فوری چیک اپ نہ کر سکے تو مولانا کے دل نے دھڑکنے سے انکار کر دیا اور آپ بے ہوش ہوگئے جب رات اڑھائی بجے ہوش آیا تو موت سامنے کھڑی تھی‘آخری لمحات میں مولانا رحمۃ اللہ علیہ سورۃ یٰسین کی تلاوت فرمانے لگے اور اس سورۃ کی آخری آیت’’ فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ‘‘ پر اپنی جان حضور الٰہی میں پیش کر دی۔[2] بدھ 28 مئی1980ء کو صبح آٹھ بجے جنازہ اُٹھا‘راولپنڈی کا راجہ بازار اور اس سے ملحقہ دوسرے بازاربندگان‘ خدا سے اٹے پڑے تھے۔تابت کے ساتھ بانس باندھے ہوئے تھے لیکن ہجوم اس قدر تھا کہ جنازہ لوگوں کے سروں پر جا رہا تھا‘ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کا جنازہ لیاقت باغ راولپنڈی میں پڑھا گیا جہاں مولانا رحمۃ اللہ علیہ چالیس سال تک عیدین پڑھاتے رہے۔اور مولانا کا جنازہ ان کی وصیت کے مطابق حضرت مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پڑھایا۔مغرب کی اذان سے کچھ دیر قبل قرآن وحدیث کایہ شارح‘ توحید کا یہ داعی سپرد خاک کر دیا گیا۔
Flag Counter