Maktaba Wahhabi

121 - 263
’’وَالْمَلَائِكَةُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ وَإِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ‘‘ فرشتے کب آئیں گے؟اس کے متعلق جمہور کا قول یہ ہے کہ فرشتے قیامت کے دن آئیں گے اور قتادہ نے کہا:موت کے وقت آئیں گے۔اس سے مراد مخلوق کو یہ خبر دینی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ان کو ثواب اور عقاب کی جزا دینے والا ہے۔[1] تجزیہ: دونوں مصنفین کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے جن اعضاء کا تذکرہ یا ان کا بادلوں میں آنا یا آسمان دنیا پر آنا ان سب سے قدرت مراد ہے مگر یہ ان کی بات درست نہیں ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ وہ آسمان دنیا پر آتے ہیں تو وہ قدرت کے ساتھ ساتھ جسمانی کیفیت میں بھی آتے ہیں کیونکہ قدرت کے لحاظ سے تو اللہ تعالیٰ پہلے ہی ہر جگہ موجود ہیں تو الگ سے کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نازل ہوتے ہیں؟۔ اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کے زمین پر اترنے کا ذکر اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر کیا ہے۔ تمام صحابہ اور تابعین اللہ تعالیٰ کے نزول پر ایمان رکھتے تھے کہ جس طرح اللہ کے شان کے لائق ہے وہ ہر رات آسمانِ دنیا پر اترتا ہے‘ نہ یہ کہتے کہ کس طرح اترے گا یا وہ عرش پر کس طرح قرار دیتے ہیں(جسے تشبیہ کہتے ہیں)‘ نہ یہ کہ ہمیں معلوم ہی نہیں کہ ان الفاظ کا معنی کیا ہے؟ بس یہ اللہ ہی جانتا ہے(جسے تفویض کہتے ہیں)۔ بعد میں آنے والے لوگوں نے غیر مسلموں سے متاثر ہو کر کسی نے سرے سے ان صفات کا انکار ہی کر دیا‘ کسی نے تاویل کی‘ کسی نے اپنے پاس سے کیفیت متعین کی‘ کسی نے مخلوق کے ساتھ مشابہ کر دیا‘ یہ تمام صورتیں در حقیقت صفات الٰہی کا انکار ہے۔ 4۔بادشاہی صرف اللہ کی ہےاز الوانی رحمہ اللہ: ’’ قُلِ اللّٰهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ‘‘[2] (تو کہہ یا اللہ مالک سلطنت کے تو سلطنت دیوے جس کو چاہے اور سلطنت چھین لیوے جس سے چاہے اور عزت دیوے جس کو چاہے اور ذلیل کرے جس کو چاہے تیرے ہاتھ ہے سب خوبی بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے) قُلِ اللّٰهُمَّ۔ جب دلائل عقلیہ ونقلیہ سے ثابت ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الہ(معبود)نہیں تو اب اسکا ثمرہ بیان فرمایا گیا ہے کہ غائبانہ حاجات میں صرف اللہ ہی کو پکارو اور پکارتے وقت یوں کہا کرو اے اللہ ان صفات کے مالک میری فلاں حاجت پوری کر۔ اَللّٰهُمَّ۔ خلیل اور سیبویہ اور بصرہ کے نحویوں کی رائے میں اصل میں یَا اَللہُ تھا۔ حرف ندا کو حذف کر کے اس کے
Flag Counter