Maktaba Wahhabi

146 - 263
التکوین و تمثیل و لا قول ثم[1] تو جو اللہ اتنا زبردست اور قادر ہو کہ صرف ارادہ کرے اور کام ہوجائے تو تم ہی بتاؤ کہ اسے نائبوں کی کیا ضرورت ہے۔ لہذا اس کا کوئی مددگار اور نائب نہیں۔[2] اللہ عزوجل کے ارشاد’’کن فیکون‘‘کی تفسیراز سعیدی رحمہ اللہ: اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد یا موجود سے ہوگا یا معدوم سے ہوگا‘اگر یہ ارشاد معدوم سے ہو تو کسی معدوم سے خطاب کرنا درست نہیں ہے اور اس کی طرف لفظِ کُن سے اشارہ کرنا صحیح نہیں ہے اور اگر یہ خطاب موجود سے ہو تو جو چیز پہلے سے موجود ہے اس کے متعلق یہ کہنا’’ہوجا‘‘تحصیلِ حاصل ہے‘اس کا جواب یہ ہے کہ ازل میں تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کے علم میں موجود تھیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنے علم میں موجود چیز کی طرف متوجہ ہو کر فرمایاکہ’’اس جہاں میں موجود ہو جا‘لہٰذا نہ معدوم سے خطاب لازم آیا اور نہ تحصیل حاصل لازم آئی۔[3] 5۔اللہ تعالیٰ کا ظلم کرنے والوں کو ہلاک فرما کر اُن کے بدلہ میں دوسرے لوگوں کو زندہ فرمانااز الوانی رحمہ اللہ: ’’وَكَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْيَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً وَأَنْشَأْنَا بَعْدَهَا قَوْمًا آخَرِينَ‘‘[4] اس آیت میں تخویف دنیوی ہےکہ”قَصَمْنَا اي اهلکنا“ یعنی ہلاک کردیا ہم نے۔ ”ظالمة“ یعنی شرک کرنے والی۔ ”فَلَمَّا اَحَسُّوْا بَاسَنَا“ ان قوموں کے پاس ہمارے پیغمبر آئے تو انہوں نے ان کی پرواہ نہ کی اور ان کو جھٹلایا اور بعض کو قتل کردیا۔ پھر جب ہمارا عذاب آپہنچا تو لگے بھاگنے۔ ”لَاتَرْکُضُوْا الخ“ ہم نے کہا اب بھاگو مت۔ بلکہ اپنے اموال و اولاد، باغات اور محلات کی طرف واپس آؤ۔ تاکہ آج جو کچھ تم پر گذرے گا۔ اس کے بارے میں کل تم سے پوچھا جائے گا اور تم اپنا تجربہ اور مشاہدہ بیان کرسکو۔ یہ ان سے بطور استہزاء کہا گیا۔ لعلکم تسئلون غدا عما جری علیکم ونزل باموالکم فتجیبوا السائل عن علم ومشاهدة[5][6] اللہ تعالیٰ کا ظلم کرنے والوں کو ہلاک فرما کر اُن کے بدلہ میں دوسرے لوگوں کو زندہ فرمانااز سعیدی رحمہ اللہ: علامہ ابو حفص عمر بن علی الدمشق سورۃ الانبیاء:11کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
Flag Counter