Maktaba Wahhabi

240 - 263
مصنف کے نزدیک اس اشکال کا جواب: مصنف کہتے ہیں یہ آیت اس کے خلاف نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا علم ہے کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ کا کوئی آسمانوں اور زمینوں میں شریک ہوتا تو اسے اس کاعلم ہوتا‘اور جب اس کا اللہ تعالیٰ کو علم نہیں ہے تو یہ اس کو مستلزم ہے کہ اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔رہا یہ کہ اللہ تعالیٰ کو تو معدومات اور محالات کا بھی علم ہے‘اس کا مطلب یہ ہے کہ معدوم کے معدوم ہونے کا اللہ تعالیٰ کو علم ہے‘معدوم کے موجود ہونے کا اللہ تعالیٰ مکو علم نہیں ہے‘کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ کو کسی معدوم کے موجود ہونے کا علم ہو تو یہ علم واقع کے خلاف ہوگا اور جو علم واقع کے خلاف ہو وہ جہل ہے اور اللہ تعالیٰ جہل سے بلندوبرتر ہیں۔اسی لیے فرمایا:’’سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ‘‘کہ یہ مشرکین جو اللہ تعالیٰ کے لیے کسی شریک کو بیان کرتے ہیں‘اللہ تعالیٰ اس سے بلندوبرتر اور مبرّا ومنزّہ ہیں۔[1] 3۔اللہ تعالیٰ کے دکھائی دینے کے متعلق معتزلہ اور اہل سنت کا نظریہ: ’’لَاتُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ‘‘[2]معتزلہ نے اس آیت سے اللہ تعالیٰ کے دکھائی نہ دینے پر استدلال کیا ہے۔اور اہل سنت وجماعت کا یہ مذہب ہے کہ اللہ عزوجل کی ذات بالمشافہ دکھائی دے گا جیسا کہ قرآن مجید کی درج ذیل آیا ت اس پر دلیل ہیں: قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے دکھائی دینے پر اہلسنت وجماعت کے قرآن مجید سے دلائل: اللہ عزوجل کا ارشاد ہے’’ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ﴿٢٢﴾إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ ‘‘[3]اس روز بہت سے منہ رونق دار ہوں گے0 اور)اپنے پروردگار کے محو دیدار ہوں گے۔)نیز اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:’’كَلَّا إِنَّهُمْ عَن رَّبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ‘‘[4](بےشک یہ لوگ اس روز اپنے پروردگار(کے دیدار)سے اوٹ میں ہوں گے)۔ امام مالک رضی اللہ عنہ نے کہا ہے اگر مومنین بھی قیامت کے دن اپنے رب کو نہ دیکھتے تو اللہ تعالیٰ کفار کو اپنے دیدار کی محرومی پر ملامت نہ فرماتے‘اور میں کہتا ہوں کہ اگر مؤمنین بھی اللہ جلّ مجدہ کو قیامت کے دن نہ دیکھ سکتے تو مومنین اور کفار کا حال ایک جیسا ہوتا تو پھر یہ آیت کفار کے لیے باعثِ حسرت نہ ہوتی۔[5]
Flag Counter