Maktaba Wahhabi

139 - 263
وہ ابحاث جو صرف تفسیر تبیان الفرقان میں مذکور ہیں: 1۔اللہ تعالیٰ کے چار کلمات لکھنے کا حکم دینے سے اللہ تعالیٰ کے کلام کرنے کا ثبوت: علامہ ابی حفص عمر بن علی بن احمد الانصاری المعروف بہ ابن ملقن اس حدیث(ہم سے حسن بن ربیع نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالاحوص نے، ان سے اعمش نے، ان سے زید بن وہب نے اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم سے صادق المصدوق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا اور فرمایا کہ تمہاری پیدائش کی تیاری تمہاری ماں کے پیٹ میں چالیس دنوں تک پھر ایک بستہ خون کے صورت میں اختیار کئے رہتا ہے اور پھر وہ اتنے ہی دنوں تک ایک مضغہ گوشت رہتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتوں(کے لکھنے)کا حکم دیتا ہے۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ اس کے عمل، اس کا رزق، اس کی مدت زندگی اور یہ کہ بد ہے یا نیک، لکھ لے۔ اب اس نطفہ میں روح ڈالی جاتی ہے(یاد رکھ)ایک شخص(زندگی بھر نیک)عمل کرتا رہتا ہے اور جب جنت اور اس کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر سامنے آ جاتی ہے اور دوزخ والوں کے عمل شروع کردیتا ہے۔ اسی طرح ایک شخص(زندگی بھر برے)کام کرتا رہتا ہے اور جب دوزخ اور اس کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر غالب آجاتی ہے اور جنت والوں کے کام شروع کردیتا ہے۔[1]کی شرح میں لکھتے ہیں: علماءِ اہل سنت کا مذہب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ازل میں تمام کلاموں کے ساتھ متکلم تھے اور اس سے ان لوگوں کا رد ہوتا ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ سبحانہ اگر چاہیں تو اپنی تمام مخلوق کو عذاب دیں‘کیونکہ اللہ تعالیٰ کی یہ شان نہیں ہے کہ ان کے علم میں تبدیلی ہو اور اللہ تعالیٰ کو ازل میں علم تھا کہ وہ کن پر رحم فرمائیں گے اور کن کو عذاب دیں گے اور اہل الحق کا اس پر اتفاق ہے کہ ازل میں اللہ تعالیٰ کا کلام فی نفسہ تھا۔[2][3] تجزیہ: اللہ رب العزت کے لیے جن اعضاء وصفات کا ذکر قرآن وحدیث سے ملتا ہے انہیں بنا تاویل وتشبیہ کے من وعن تسلیم کرنا ایمان کا جزو ہے۔ اگر ان پر ایمان نہ لایا جائے تو ایمان میں خلل واقع ہو گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان صفات حمیدہ کو اللہ تعالیٰ کے لیے تسلیم کیا جائے۔
Flag Counter