Maktaba Wahhabi

138 - 263
صورت عطافرمائی‘آپ نے فرمایا:کیا تم نہ نہیں مانتے کہ بے شک ہمارا رب نہ کھاتا ہے اور نہ پیتا ہے اور نہ قضائے حاجت کرتا ہے؟انہوں نےکہا:کیوں نہیں!آپ نے فرمایا:کیا تم نہیں مانتے کہ حضرت عیسٰی سے اُن کی ماں اس طرح حاملہ ہوئیں جیسے عورتیں اپنے بچوں سے حاملہ ہوتی ہیں اور حضرت عیسٰی کی ماں نے حضرت عیسٰی کو اسی طرح جنا جس طرح عورتیں اپنے بچوں کو جنتی ہیں پھر حضرت عیسٰی کو اسی طرح غذا دی گئی جس طرح بچوں کو غذا دی جاتی ہے‘پھر وہ کھانا کھاتے تھے او رپانی پیتے تھے اور قضاء حاجت کرتے تھے؟انہوں نے کہا:کیوں نہیں!آپ نے فرمایا: جب تمہارا یہ زعم ہے تو پھر حضرت عیسٰی خدا کیسے ہو سکتے ہیں اور انہوں نے سوائے انکار کے اور کوئی جواب نہیں دیا‘پھر انہوں نے جوابًا کہا:اے محمد!کیا آپ کا یہ زعم نہیں ہے کہ عیسٰی’اللہ‘کاکلمہ اوراس کی روح ہیں؟آپ نے فرمایا:کیوں نہیں!انہوں نے کہا:بس یہ بات ہمیں کافی ہے‘تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ‘‘پھر اللہ تعالیٰ نے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن سے مباہلہ کرنے کا حکم فرمایا‘سو آپ نے اُن کو مباہلہ کی دعوت دی تو انہوں نے کہا:اے ابو القاسم!ہمیں غوروفکر کرنے کی مہلت دیں‘پھر ہم بعد میں آپ کے پاس آئیں گے‘سو وہ چلے گئے‘پھر اُن تینوں نے ایک دوسرے سے کہا!تمہاری کیا رائے ہے؟پس ایک نے کہا:اے نصارٰی کی جماعت!تمہیں خوب معلوم ہے کہ محمد نبی مرسل ہیں اور وہ تمہارے پاس تمہارے پیغمبر کے متعلق فیصلہ کُن خبر سناتے ہیں اور تم اچھی طرح جانتے ہو کہ جس قوم نے بھی نبی سے مباہلہ کیا تو اُس کے بڑے اور چھوٹے سب فنا کر دیئے گئے اور اگر اتم نے ان سے مباہلہ کیا تو تم سب مارے جاؤ گے‘پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا:اے ابو القاسم!بے شک ہماری یہ رائے ہے کہ ہم آپ سے مباہلہ نہ کریں اور آپ ہم کو اپنے دین پر عمل کرنے کے لیے چھوڑدیں اور ہم اپنے دین پر عمل کرتےرہیں اور انہوں نے کہا:آپ اپنے اصحاب میں سے ہمارے ساتھ کسی مرد کو بھیجئے تاکہ جن مالی معاملات میں ہمارا اختلاف ہے وہ اُس میں ہمارا فیصلہ کریں‘پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم شام کو آنا‘میں تمہارے ساتھ’’القوی الامین‘‘ کو بھیجوں گا‘حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:میں نے اس دن کے علاوہ اور کسی دن امارت کی تمنا نہیں کی‘انہوں نے بیان کیا کہ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی‘پھر آپ نے اپنی دائیں طرف اور بائیں طرف نظر ڈالی اور میں چاہتا تھا کہ آپ مجھ پر نظر جمائے رکھیں حتٰی کہ آپ نے حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ پر نظر ڈالی‘سو اُن کو بلایا‘پس فرمایا:اےابو عبیدہ!تم اِن لوگوں کے ساتھ جاؤ اور ان کے مالی معاملات کے اختلاف میں حق کے ساتھ فیصلہ کرو۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا:پس وہ لوگ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ لے گئے۔[1]
Flag Counter