Maktaba Wahhabi

197 - 263
اپنے نفس کو معبود بنانے کی تفسیر از مولانا سعیدی رحمہ اللہ: ’’أَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ أَفَأَنْتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلًا‘‘[1] اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ ان لوگوں کی جہالت اوردلائل سے اعراض کرنا ان کے آباء واجداد کی تقلید کی وجہ سے ہے اور انہوں نے اپنی خواہشوں کو اپنا معبود بنا لیا ہے۔ ’’ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ ‘‘ کا معنی یہ ہے کہ انہوں نے اپنے نفسوں کے لیے صرف اپنی خواہشوں کو معبود بنا لیا ہے۔اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا:الھواء وہ معبود ہے جس کی عبادت کی جائے اور سعید بن جبیر نےکہا کہ مشرکین میں سے کوئی مرد جو بتوں کی عبادت کرتا تھا‘جب وہ اس سے زیادہ خوبصورت بُت دیکھتا تو اس بت کو پھینک دیتا اور دوسرے بت کی پرستش کرنا شروع کر دیتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’أَفَأَنْتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلًا‘‘یعنی کیا آپ ان کے محافظ ہیں جو ان کو خواہش کی پرستش کرنے سے منع کریں کے‘حالانکہ آپ اس طرح نہیں ہیں۔اس آیت کی نظیر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے’’لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَيْطِرٍ‘‘[2](آپ ان پر مسلط نہیں ہیں)‘اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد’’ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ وَمَا أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِجَبَّارٍ فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَنْ يَخَافُ وَعِيدِ‘‘[3](اے رسول اکرم!کفار جو کچھ کہہ رہے ہیں ہم اُسے خوب جانتے ہیں اور آپ انہیں مجبور کرنے کے پابند نہیں‘آپ اس شخص کو قرآن کے ذریعے نصیحت کرتے رہیں جو میری وعید سے ڈرتا ہو۔) 8۔ اللہ تعالیٰ کا بندوں کی عبادت سے بے نیاز ہونااز مولانا الوانی رحمہ اللہ: ’’قُلْ مَا يَعْبَأُ بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُونُ لِزَامًا‘‘[4] یہ تخویف دنیوی ہے اور خطاب مشرکین مکہ سے ہے۔ بکم میں باء تعدیہ کیلئے ہے۔ ربی، یعبؤا کا فاعل ہے۔ دعاء کم مصدر مفعول کی طرف مضاف ہے اور فاعل اللہ ہے اور لولا کا جواب محذوف ہے ای لعذبکم۔ اصل عبادت اس طرح ہوگی۔ لو لا دعاء اللّٰه ایاکم لعذبکم۔ یعنی میرے پیغمبر آپ فرما دیں میرے رب کو تمہاری پروا نہیں اگر تمہیں اللہ کی طرف سے توحید کی دعوت نہ ہوتی تو تمہیں عذاب سے جلد ہلاک کردیا جاتا لیکن اللہ کی سنت جاریہ یہ ہے کہ تبلیغ دعوت سے پہلے وہ کسی کو
Flag Counter