Maktaba Wahhabi

21 - 263
٭ تفسیر موضوعی ٭ غرائب تفسیر القرآن بالقرآن ٭ اجمال کی تفصیل بالقرآن مولانا حسین علی الوانی رحمہ اللہ نےان تمام صورتوں کو قدرے بیان کیا ہے لیکن مصنف کا زیادہ شغف تفسیر القرآن بالقرآن میں تفسیر موضوعی اور تفسیر القرآن بسیاق القرآن کی طرف ہے۔تفسیر جواہر القرآن سے چند نمونے ذکر کیے جاتے ہیں: تفسیر مفردات القرآن بالقرآن: مولانا حسین علی الوانی رحمہ اللہ نے کئی مقامات پر مفردات القرآن کی تفسیر قرآنی آیات سے کی ہے۔ ’’الحمد للّٰہ رب العٰلمین‘‘([1])کی تفسیر میں الف لام استغراق کہنے کی صورت میں ان مفسرین پر اعتراض ہوتا ہے کہ اس صورت میں معنٰی یہ ہوگا کہ تمام تعریفیں اللہ کے لیے خاص ہیں تو پھر غیرخدا کی تعریف کیوں کی جاتی ہے حالانکہ غیر خدا کی تعریف خود اللہ نے قرآن پاک میں کی ہے جیسے انبیاء‘اولیاء‘شہداء وغیرہ تو اسکا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ غیرخدا کی تعریف بھی دراصل خدا کی تعریف ہے کیونکہ مخلوق کی تمام خوبیوں کا سرچشمہ اور عطا کنندہ اللہ تعالیٰ ہے اس لیے کسی خوبی کیوجہ سے مخلوق کی جو تعریف ہوگی وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی تعریف ہوگی۔مولانا الوانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قاعدہ نحو کے مطابق’’الف الام‘‘ کا مجازی معنٰی وہاں مرا لیا جاتا ہے جہاں حقیقت متعذر ہو۔یہاں الف لام عہد خارجی کا ہے یعنی وہ تعریفات جو صفات الوہیت پر ہیں وہ اللہ کے لیے خاص ہیں مثلا صفات کارسازیہ‘صفات فاعلیہ یا مافوق الاسباب صفاب مثلا مالک‘مختار‘متصرف فی الامور‘حاجت روا‘مشکل کشا‘دور ونزدیک سے یکساں سمیع وبصیر ہونا وغیرہ صفات اللہ کے لیے ہی مختص ہیں تو جب حقیقی معنٰی مراد لیا جا سکتا ہے اور اس صورت میں اعتراض بھی نہیں ہوتا تو حقیقی معنٰی سے اعراض نہیں کیا جانا چاہیے۔ اس دعوٰی کی وضاحت کے لیے مولانا رحمہ اللہ نے آیات قرآنیہ سے اس تفسیر کو مدلل فرمایا ہے کہ یہاں صفات الوہیت(اللہ تعالیٰ سے مختص صفات)مراد ہیں مثلاً: ﴿قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللّٰهُ﴾[2] ’’آپ فرما دیں آسمان وزمین میں جو بھی ہیں وہ غیب نہیں جانتے سوائے اللہ تعالیٰ کے۔‘‘ ﴿وَمَا بِكُم مِّن نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ﴾[3] ’’تمہارے پاس جو نعمت بھی ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ہے‘‘ وغیرہ آیات سے اس کو ثابت فرماتے ہیں‘‘
Flag Counter