Maktaba Wahhabi

22 - 263
الحمد کےالف لام کے عہد خارجی ہونے پر مزید فرماتے ہیں جہاں بھی الحمد للہ آیا ہے وہاں سیاق کلام سے بھی یہی نمایاں ہے کہ صفات الوہیت ہی مراد ہیں تمام صفات مراد نہیں ہیں اور مشرکین کے اس خیال کی تردید کی گئی ہے کہ ان کے مزعومہ معبود مافوق الاسباب صفات کے حامل نہیں ہیں مثلاً ﴿فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾[1] ’’یعنی پس ظالم قوم کی جڑکاٹ دی گئی ہے اور تمام صفات اللہ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔‘‘ یہاں مراد صفات الوہیت ہیں کہ مصیبت کے وقت وہی کام آتا ہے‘اس کی گرفت مضبوط ہے وہ ظالموں کی جڑ کاٹ دیتا ہے اگر الف لام کو یہاں استغراق کے لیے مانا جائے تو ما قبل سے رابطہ ہی قائم نہیں رہتا۔[2] ﴿قُلْ يَتَوَفَّاكُم مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ﴾[3] ’’آپ فرما دیں تمہیں ملک الموت قبض کر لیتا ہے جو تم پر مقرر کیا گیا ہے پھر تم اپنے پروردگار کیطرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘ اہل بدعت کے رد میں مولانا الوانی رحمہ اللہ کی شان نرالی تھی جہاں کسی غلط عقیدہ کا اہل بدعت کی طرف سے کوئی استدلال ہوتا یا ہو سکتا تھا وہیں اس کی تردید کرنا حضرت اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے‘ فرماتے ہیں: ’’اہل بدعت اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ جب ملک الموت ایک ہے اور وہ بیک وقت دنیا کے مختلف حصوں میں ہزاروں لوگوں کی روحیں قبض کر سکتا ہے تو حضرت نبی رحمہ اللہ اور اولیاء اللہ بھی اسی طرح بیک وقت مختلف جگہوں پر حاضر وناظر ہو سکتے ہیں۔تو اسکا جواب یہ ہے کہ جان قبض کرنے والے فرشتے ہزاروں ہیں جو عزرائیل علیہ السلام کے ماتحت ہیں لفظ ملک الموت اسم جنس ہے جو ان سب کو شامل ہے جیسا کہ قرآن مجیدکی دوسری آیات سے اس کی تائید ہوتی ہے۔‘‘ ﴿حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ﴾[4] ’’حتٰی کہ جب تم میں سے کسی کی موت آتی ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے اس کو قبض کرلیتے ہیں اور وہ کمی نہیں کرتے اورایسے ہی آیت:
Flag Counter