Maktaba Wahhabi

30 - 263
’’البقية من الشي يقال اثر الدار لما بقي منها‘‘[1] امام نووی رحمہ اللہ [2]بھی ایسے ہی لکھتے ہیں۔[3] تفسیر بالماثور میں صاحب جواہر القرآن کا طریق کار: تفسیر بالماثور میں علامہ الوانی رحمہ اللہ کا اسلوب جمہور مفسرین کے عین مطابق ہےچنانچہ رقم طراز ہیں: ’’ایک بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ عالم غیب کی تمام اشیاء اور ان کے متعلق احوال وکوائف مثلاً عالم برزخ اور ما بعد الحشر کی تفصیلات وکوائف کو مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کے مطابق ہی مانا جائے گا۔ظن وتخمین اور علام شہادت پرقیاس کےذریعےعالم غیب کی کوئی چیزثابت نہیں کی جا سکتی عالم غیب کے جو امور نصوص قطعیہ سے ثابت ہیں مثلاً عذاب قبر‘حشر‘نشروغیرہ ان کا انکار کفر اور جو امور دلائل ظنیہ سے ثابت ہیں مثلاً زندوں کے بعض اعمال سے مردوں کا منتفع ہونا(ایصال ثواب)امت کے صلاۃ وسلام کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچنا‘ اورعالم برزخ میں ارواح کا اجسادمثالیہ میں ممثل ہو کر عبادات اور دیگر افعال بجالانا وغیرہ کا انکار بدعت ہے اور وہ امور جن کی بنیاد محض ضعیف اور بالکل کمزور روایتوں پر ہو ان کے انکار سے ایمان میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا ایسے امور کے ردوقبول میں قرآنی ارشادات اور صحیح روایتوں سے راہنمائی حاصل کی جائے گی مردوں کا سننا‘امت کے اعمال کا نبی علیہ السلام کے سامنے پیش ہونا وغیرہ ایسے امور ہیں۔‘‘([4]) تفسیر بالماثور عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم: مولانا الوانی رحمہ اللہ عموماً احادیث مبارکہ نقل فرما دیتے ہیں اور حوالہ نقل نہیں کرتے ہیں اور نقل احادیث میں بھی اجزاء احادیث نقل کرتے ہیں۔مثلاً ﴿وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هَٰذِهِ الْقَرْيَةَ فَكُلُوا مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطَايَاكُمْ وَسَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ[5] ’’یعنی اور جب ہم نے(ان سے)کہا کہ اس گاؤں میں داخل ہو جاؤ اور اس میں جہاں سے چاہو، خوب کھاؤ(پیو)اور(دیکھنا)دروازے میں داخل ہونا تو سجدہ کرنا اور حطة کہنا، ہم تمہارے گناہ معاف کر دیں گے اور نیکی کرنے والوں کو اور زیادہ دیں
Flag Counter