Maktaba Wahhabi

231 - 263
تجزیہ: دونوں مصنفین رحمہ اللہ نے تو اس بات کی نفی کی ہے کہ عالم الغیب کوئی نہیں ہے لیکن علامہ سعیدی رحمہ اللہ کا مؤقف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو کچھ غیب کا علم عطا کیا تھا تو اس کا التزامی جواب تو یہ ہے کہ جو علم عطایا جائے وہ غیب ہوتا ہی نہیں کیونکہ غیب ہم اس علم کو کہتے ہیں جو ہمیں ازخود علم ہو اور اس میں کسی کی معاونت یا کسی ذرائع کا دخل نا ہو‘ جب وہ علم دیا ہی اللہ نے ہے تو وہ غیب رہتا ہی نہیں ہے اور قرآن مجید میں کئی ایسی آیات ہیں جن سے اس بات کا رد ہوتا ہے کہ اللہ کے نبی غیب جانتے تھے کیونکہ علم غیب صرف اور صرف اللہ تعالی کے پاس ہے اس نے اس میں میں سے کسی کو کچھ بھی نہیں دیا ہے،نہ جزوی طور پر کچھ دیا ہے اور نہ کلی طور کچھ دیا ہے۔اس کی دلیل قرآن مجید کی یہ آیات مبارکہ ہیں: ارشاد باری تعالی ہے۔ ﴿قُل لا يَعلَمُ مَن فِى السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَر‌ضِ الغَيبَ إِلَّا اللّٰهُ ۚ وَما يَشعُر‌ونَ أَيّانَ يُبعَثونَ﴾[1] اے نبی ! ان سے کہو نہیں جانتا جو بھی ہے آسمانوں میں اور زمین میں،غیب کو سوائے اﷲکے اور نہیں جانتے وہ تو یہ بھی کہ کب دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔ ﴿وَعِندَهُ مَفاتِحُ الغَيبِ لا يَعلَمُها إِلّا هُوَ وَيَعلَمُ ما فِى البَرِّ‌ وَالبَحرِ‌ وَما تَسقُطُ مِن وَرَ‌قَةٍ إِلّا يَعلَمُها وَلا حَبَّةٍ فى ظُلُمٰتِ الأَر‌ضِ وَلا رَ‌طبٍ وَلا يابِسٍ إِلّا فى كِتٰبٍ مُبينٍ﴾[2] اور اسی کے پاس ہیں کنجیاں غیب کی نہیں جانتا انہیں کوئی سوائے اس کے اور وہ تو جانتا ہے اسے بھی جو خشکی میں ہے اور جو سمندر میں ہے اور نہیں جھڑتا کوئی پتہ مگر وہ اس کے علم میں ہے اور نہ کوئی دانہ زمین کے تاریک پردوں میں ایسا ہے اور نہیں کوئی تر اور نہ خشک(چیز)مگر وہ روشن کتاب میں(درج)ہے۔ ﴿هُوَ اللّٰهُ الَّذى لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ عٰلِمُ الغَيبِ وَالشَّهٰدَةِ هُوَ الرَّ‌حمٰنُ الرَّ‌حيمُ﴾[3] وہ اﷲ ہی ہے نہیں کوئی معبود سوائے اس کے جاننے والا غائب وحاضر کا بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا۔ ان تمام آیتوں کے مطالعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ غیب کا علم صرف اﷲہی کے خاص ہے اس کے علاوہ کسی کے پاس یہ علم نہیں کہ وہ چھپی ہوئی چیزوں کو جان لے۔
Flag Counter