Maktaba Wahhabi

122 - 263
عوض میں میم مشددہ مفتوحہ کا آخر میں اضافہ کردیا گیا۔ مٰلِکَ الْمُلْکِ۔ امام مبرد اور زجاج کے نزدیک یہ اللّٰهُمَّ کی صفت ہے اور اسی لیے منسوب ہے کیونکہ منادی مفرد مبنی علی الضم کی صفت جب مضاف ہو تو وہ منصوب ہوتی ہے۔ وانتصاب مالک علی الوصفیة عند المبرد والزجاج[1]اور مُلْک بضم میم سے کامل قدرت واختیار اور مکمل غلبہ واقتدار مراد ہے تو مَالِکُ الْمُلْکِ کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہی حقیقی متصرف اور ہر قسم کے اختیار واقتدار کا واحد مالک ہے۔ تمام تصرفات اور اختیارات اسی کے قبضہ میں ہیں اور ان میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ فمالک الملک هو الملک المحقیقی المتصرف بما شاء کیف شاء ایجادا او اعداما وامتةً وتعذیبا واثابة من غیر مشارک ولا مانع[2]جب یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہی مالک الملک علی الاطلاق ہے تو اس کے بعد کچھ تصرفات کا ذکر کیا۔ جو اللہ ہی کے ساتھ مخصوص ہیں۔ تُؤْتِیْ الْمُلْکَ مَنْ تَشَآءُ۔ یہ جملہ مع معطوفات منادی سے حال ہے۔ کیونکہ منادی معنیً مفعول ہوتا ہے۔ یا یہ جملہ مع معطوفات منادی کی صفت ہے اور جملہ(جو اگرچہ نکرہ کے حکم میں ہوتا ہے)جب کسی مفرد معرفہ کے ساتھ مخصوص ہو تو وہ معرفہ کے حکم میں ہوتا ہے اور معرفہ کی صفت واقع ہوسکتا ہے۔ کما فی الرضی قالہ الشیخ رحمہ اللہ تعالیٰ اور یہاں ملک سے مراد حکومت وسلطنت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تو جسے چاہتا ہے دنیا کی حکومت دے دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے۔ جیسا کہ آئے دن حکومتوں میں ردوبدل اور انقلاب رونما ہوتا رہتا ہے۔ اَلْخَیْرُ مبتدا مؤخر ہے اور اس میں الف لام استغراق کے لیے ہے۔ بِیَدِکَ خبر مقدم ہے تاکہ حصر اور تخصیص کا فائدہ دے۔ اور یَد سے یہاں قدرت اور قبضہ مراد ہے۔ یعنی ہرق سم کی خیر اور بھلائی صرف تیری ہی قدرت اور صرف تیرے ہی قبضہ واختیار میں ہے اور متصرف علی الاطلاق تو ہی ہے۔ تیرے سوا کوئی مالک ومختار، قادر وکارساز، حاجت روا اور مشکل کشا نہیں۔ [3] اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے: ’’ للّٰه ملک السموات[4]‘‘یہ عقلی دلیل ہے اور پہلے دعوے سے متعلق ہے۔ زمین و آسمان میں وہی متصرف و مختار ہے اور وہی ہر چیز کا خالق ہے۔ اولاد دینا اور اولاد سے محروم کرنا بھی اسی کے اختیار میں ہے، اس معاملے، بکہ ساری کائنات کے نظام میں کوئی دخیل نہیں۔ وہ جسے چاہتا ہے صرف بیٹیاں عطا کرتا ہے جیسا کہ حضرت لوط اور حضرت شعیب علیہما السلام اور جسے چاہتا ہے صرف بیٹے ہی عطا کرتا ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم(علیہ السلام)اور جسے چاہتا ہے بیٹے اور بیٹیاں دونوں نعمتیں عطا فرما
Flag Counter