Maktaba Wahhabi

221 - 263
یا اِن آیات کی صحیح تاویلات کی جائیں جیسا کہ متاخرین علماء نے جاہوں کے اعتراضات دور کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا ہے‘تاکہ جو کم علم مسلمان ہیں وہ اسلام سے برگشتہ نہ ہوں۔[1][2] تجزیہ: راجح بات یہی ہے کہ جن اعضاء وصفات کا اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے اثبات کیا ہے انہیں من وعن ویسے ہی مانا جائے گا اور ان پر ایمان لانا ضروری ہے لیکن انہیں انسانی صفات و اعضاء کے ساتھ تشبیہ وتمثیل دینے سے بچا جائے گااور نہ ہی ان صفات و اعضاء کا انکار کیا جائے گا کیونکہ اہل سنت والجماعۃ کا موقف ہی یہی ہے کہ نہ تاویل کی جائے گی اور نہ تشبیہ دی جائے گی بلکہ جیسے بیان کیا گیا ہے ویسے ہی ایمان لایا جائے گا۔ 4۔شرک کی نفی پر دلائل: ’’قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللّٰهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي‘‘[3]اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے ہیں جن کو انہوں نے انسانوں اور جنات کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ حکم فرمایا کہ آپ لوگوں کو یہ خبر دیں کہ یہ اللہ کاراستہ ہے اور وہ ہے اللہ عزوجل کے واحد ہونے کی شہادت دینا کہ ان کا کوئی شریک نہیں ہے اور آپ اللہ تعالیٰ کی طرف اس کلمۂ توحید کے ساتھ پوری بصیرت اور یقین اور برہان کے ساتھ دعوت دیتے ہیں‘آپ بھی اور جو آپ کے پیروکار ہیں وہ بھی پروی بصیرت اور یقین کے ساتھ اور برہانِ عقلی اور شرعی کے ساتھ دعوت دیتے ہیں۔’’وَسُبْحَانَ اللّٰهِ ‘‘یعنی میں اللہ عزوجل کی اُن چیزوں سے براءت بیان کرتا ہوں جو تم اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت کرتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک ہو یا ان کا کوئی نظیر ہو یا ان کا کوئی بیٹا ہو یا ان کی کوئی بیوی ہو یا ان کا کوئی وزیر ہو یا ان کوئی مشیر ہو۔اللہ تبارک وتعالیٰ ان سب چیزوں سے بہت زیادہ بلندوبرتر ہیں۔’’وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ‘‘میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ حق سے مراد اللہ عزوجل کی ذات ہے یا قرآن مجید: ’’وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ‘‘[4]ابن جریج‘مقاتل‘ السدی اور مفسرین کی ایک جماعت نے کہا ہے کہ حق سے مراد اللہ عزوجل کی ذات ہے۔یعنی اگر اللہ عزوجل ان کی مرادکی پیروی فرماتے۔دوسرا قول یہ ہے کہ اگر ان کی مراد کی پیروی فرماتے اور اپنے لیے شریک اور اولاد کو مان لیتے جیسا کہ یہ کہتے ہیں تو تمام آسمان اور زمینیں درہم برہم ہو جاتیں۔
Flag Counter