Maktaba Wahhabi

157 - 263
وانواعہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے، اور اس میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ یہاں عبادت سے، دعا، اور پکار مراد ہے۔ آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کا ارشاد ہے کہ الدعاءهی العبادة[1]یعنی دعاء ہی اصل عبادت ہے۔ اور دعویٰ توحید اعبدوا ربکم میں حصر اور تخصیص مراد ہے۔ یعنی صرف اللہ ہی کی عبادت کرو، صرف اسی کو پکارو۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس(رض)اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔ ای افردوا الطاعة والعبادة لربکم دون سائر خلقه[2]یعنی طاعت اور عبادت صرف اپنے رب ہی کی کرو اور اس کی مخلوق کو اس کی طاعت اور عبادت میں شریک نہ بناؤ۔ عبادت سے وہی دعا اور پکار مراد ہے۔ اور حصر کا دوسرا قینہ وہ نتیجہ ہے جو دعوی توحید کے عقلی دلائل کے بعد مذکور ہے یعنی فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا۔۔۔۔ اَلَّذِیْ اب یہاں سے دعویٰ مذکور پر عقلی دلائل کی ابتداء ہوتی ہے۔ الموصول صفة مادحة للرب وفیها ایضا تعلیل العبادة او الربوبیة علی ما قیل[3]یہاں دعوی توحید پر جو عقلی دلیل پیش کی گئی ہے وہ پانچ امور پر مشتمل ہے۔ اول۔ خَلَقَکُم۔ یعنی تمہیں پیدا کیا اور نعمت وجود سے سرفراز فرمایا۔ دوم وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ تمہارے آباء واجداد، دوسرے تمام انسانوں، فرشتوں اور جنوں کا بھی وہی خالق ہے۔ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ کیونکہ توحید کی پابندی ہی سے تقویٰ حاصل ہوسکتا ہے۔ لَعَلَّ شک اور امید کیلئے موضوع ہے مگر جب اللہ کی طرف سے ہو تو یقین کے معنوں میں ہوتا ہے۔ قال سیبویه لعل وعسی حرفا ترج وهما من اللّٰه واجب[4]سوم مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ بارش کے ذریعے مردہ زمین کو زندہ کر کے اس سے تمہارے لیے روزی پیدا کی۔[5] بنی اسرائیل کو دعوت شروع میں یَااَیّيُهَا النَّاسُ کے خطاب عام کے ذریعے تمام انسانوں کو توحید کی دعوت عام دی گئی عقلی دلیل سے دعوی توحید کو مدلل اور واضح کیا گیا۔ اور دعویٰ توحید سے متعلق دو شبہات کا نہایت تسلی بخش طریقہ سے ازالہ کر کے ثابت کیا گیا کہ نہ فرشتے پکارنے کے لائق ہیں نہ انبیاء علیہم السلام اور جنات۔ اب اگلی آیت سے روئے سخن یہودیوں کی طرف پھیر دیا گیا ہے ہجرت کے بعد مدینہ میں سب سے پہلی سورت جو پیغمبر خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)پر نازل ہوئی وہ سورۃ بقرہ تھی۔ مدینہ اور اس کے گردونواح میں یہودیوں کی کافی آبادی تھی۔ ان میں بڑے بڑے نواب، علماء پیر اور درویش موجود تھے۔
Flag Counter