Maktaba Wahhabi

193 - 263
اپنے رب کی طرف وسیلہ تلاش کرنا از مولانا سعیدی رحمہ اللہ: عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے آیت ’’أُولَئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ‘‘[1] کی تفسیر میں کہا کہ کچھ جن ایسے تھے جن کی آدمی پرستش کیا کرتے تھے پھر وہ جن مسلمان ہو گئے۔[2] مصنف لکھتے ہیں کہ مشرکین فرشتوں کی عبادت کرتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ یہ فرشتے اللہ کے پاس ہماری شفاعت کریں گے‘پس جب وہ سات سال قحط میں مبتلاء کیے گئے تو ان سے کہا گیا:’’قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ‘‘اور اس کا معنی یہ ہے کہ اب تم ان کو بلاؤ جن کے متعلق تمہارا زعم تھا کہ وہ تمہارے معبود ہیں۔’’فَلَا يَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنْكُمْ وَلَا تَحْوِيلًا‘‘پس وہ تم سے تمہاری تکلیف کو دور کرنے پر قادر نہیں ہوں گے اور نہ اس تکلیف کو کسی اور کی طرف منتقل کرنے پر قادر ہوں گے۔ ’’أُولَئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ‘‘کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’أُولَئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ‘‘ سےجن کے متعلق اشارہ کیا گیا ہے‘ان کے متعلق تین اقوال ہیں: (۱)یہ وہ جن ہیں جو اسلام لے آئے تھے۔ (۲)اس سے مراد فرشتے ہیں۔ (۳)حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا:اس سے مراد حضرت مسیح اور حضرت عزیر علیہ السلام اور ملائکہ اور سورج اور چاند ہیں۔اور’’يَدْعُونَ‘‘ کے معنی میں بھی دو قول ہیں:(۱)جن کو وہ خدا کہتے تھے اور یہ اکثرین کا قول ہے۔ (۲)اس کا معنی ہے:وہ اللہ تعالیٰ سے وسیلہ کو طلب کرنے کے لیے گڑ گڑا کر دعاکرتے ہیں۔ ’’يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ‘‘ (1) زجاج نے کہا: اس کا معنی یہ ہے کہ وہ اپنے رب کی طرف وسیلہ کو تلاش کرتے تھے اور یہ دیکھتے تھے کہ کون سا وسیلہ اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہے تو اس کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں۔ (2) اس آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف قریب ترین وسیلہ کو تلاش کرتے تھے‘یعنی نیک اعمال کےساتھ اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرتے تھے۔’’وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا‘‘اور وہ اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور ان کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں‘بے شک آپ کے رب کا عذاب اس کا مستحق ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔[3]
Flag Counter