Maktaba Wahhabi

16 - 263
سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مولانارحمۃ اللہ علیہ کو علم تفسیر وحدیث اور علم فقہ میں کتنا مرتبہ عالیہ عنایت فرمایا تھا۔‘‘[1] مصنف رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق مولانا غلام اللہ خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں: جب محدث العصر حضرت انور شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حدیث پڑھنے کے لیے ڈابھیل حاضر ہوا تو شاہ صاحب کی خدمت میں حضرت مولانا حسین علی رحمۃ اللہ علیہ کا رقعہ پیش کیا(وہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے بطور سفارش لکھوا کر لائے تھے)تو حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے رقعہ کو چوما پھر آنکھوں سے لگا لیا۔[2] مصنف رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مولانا حسین علی صاحب ہمارے دور میں نقشبندی مجددی طریق سلوک کے امام اور سب سے بڑے شیخ ہیں۔[3] مصنف رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق مولانا صوفی عبد الحمید صاحب لکھتے ہیں: ’’جب حضرت مرحوم بیمار تھے تو عرض کیا گیا کہ آپ کو ایبٹ آباد لے چلیں فرمانے لگے عجیب جگہ بتلائی ہے یہ موقع مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں لے جانے کا ہے یا ایبٹ آبادکوہ مری کو۔‘‘[4] مولانارحمۃ اللہ علیہ کی عمر ستر برس ہو چکی تھی‘ایک بڑھاپا بہت بڑی بیماری ہے اور ایک ویسے مولانارحمۃ اللہ علیہ کی طبیعت کبھی ناساز ہو جاتی اور کبھی ٹھیک ہو جاتے لیکن بیماری میں ہی 25 جون 1944ء واں بھچراں کی صحرائی درس گاہ میں حضرت سید المفسرین امام المحدثین مولانا حسین علی رحمۃ اللہ علیہ نے انتقال فرمایا‘ انا للہ وانا الیہ راجعون۔اہل حق کو آ پ کی وفات سے صدمہ ہوا اور مخالفین نے خوشی کے گیت گائے اور گھی کے چاغ گھروں میں جلائے۔دوسرے دن آپ کی نمازِ جنازہ شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان رحمۃ اللہ علیہ نے پڑھائی اور اسی درس گاہ کے احاطہ میں آپ کو دفن کیا گیا۔[5] اللہ پاک مولانا الوانی رحمۃ اللہ علیہ کی قبر کو منور فرمائے اور ان کی مغفرت فرمائے آمین۔ مولانا صوفی عبد الحمید صاحب لکھتے ہیں: حضرت مولانا حسین علی خدا پرست انسان تھے جن کی زندگی انتہائی سادہ اور اعمال حسنہ سے معمور تھی۔تعلیم وتدریس اور تبلیغ واصلاح ان کی زندگی کا خاص کارنامہ ہے۔حضرت کم گو تھے‘انجمن میں بھی ایسا معلوم ہوتا کہ محو مناجات ہیں اخلاص کے پیکر تھے اور فنا فی التوحید تھے۔ مولانا قاضی شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ صاحب لکھتے ہیں:
Flag Counter