Maktaba Wahhabi

25 - 263
﴿وَلَا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَن شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ﴾[1] ﴿لَّا يَتَكَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَٰنُ وَقَالَ صَوَابًا﴾[2] ان کے علاوہ بہت سی آیات میں اس مفہوم کو بیان کیا گیا ہے۔ان تمام آیات کا مشترک مفہوم یہ ہے کہ ان میں اس شفاعت قہری[3]کی نفی کی گئی ہے جس شفاعت کے مشرکین مکہ قائل تھے کہ ہمارے معبودان اللہ تعالیٰ سے زور سے کام کروالیتے ہیں اس کے علاوہ ایک اور شفاعت کا اثبات ہے اور وہ ہے شفاعت بالاذن[4]پھر اس جائز شفاعت کی دو قسمیں ہیں۔ (1)شفاعت فی الدنیا: یہ مومن وکافر دونوں کے لیے جائز ہے کہ مومن کے لیےثبات علی الدین اور استقامت علی الحق کی دعا کرے۔جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو امر ہوا: ﴿وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ﴾[5] ’’یعنی آپ ان کے لیے رحمت کی دعا فرمائیں آپ کا ان کے لیے دعا فرمانا ان کے لیے اطمینان قلبی کا باعث ہے‘‘اور کافرکے لیے ہدایت کی دعا کریں اور پھر تحدید ہے کہ جب کافر کا کفر پہ قائم رہنا قطعی طور معلوم ہو جائے تو دعا ترک کر دے جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام کے متعلق ارشاد ربانی: ﴿فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ﴾[6] ’’یعنی جب اس کے لیے نمایاں ہو گیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہےتواس کے لیے دعا سے بیزاری کر دی۔‘‘[7] (2)شفاعت فی الآخرہ: یہ علم ہونے سے پہلے مومنوں اور کافروں کے لیے جائز ہے لیکن کفر کا علم ہونے کے بعدکسی کافر کے لیے جائز نہیں ہے جیسا کہ ایک جماعت کے لیے قیامت کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم اصحابی اصحابی کہہ کر سفارش فرمائیں گے لیکن جب معلوم ہو گا کہ انہوں نے آپ کے بعد جو کچھ کیا ہے وہ آ پکو معلوم نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بیزاری کا اعلان فرما دیں گے۔پھر سفارش کے
Flag Counter