Maktaba Wahhabi

257 - 263
معبود بنا رکھے ہیں ان میں سے کسی نے ان چیزوں میں سے ایک چیز بھی نہیں بنائی اور نہ ہی ان کو ان چیزوں کا علم ہے۔ تو اب عقل ودانش اور جذبہ شکر گذاری ونعمت شناسی کا تقاضا یہ ہے کہ اس رحمن ورحیم اور محسن ومنعم کے ان بے پایاں احسانات وانعامات کا شکر ادا کرنے اور اس کی رضامندی اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں سے اسی کی نذریں، نیازیں اور منتیں دی جائیں۔ زمین کی پیداوار میں اسی کے نام کا حسہ مقرر کیا جائے۔ روپیہ اسی کے نام پر خرچ کیا جائے۔ جانور اسی کا تقرب ڈھونڈنے کیلئے، اسی کی تعظیم کے لیے، اسی کے نام پر قربان کیے جائیں۔ یہ مشرکین کے لیے زجر ہے توحید پر عقلی دلائل قائم کرنے کے بعد ان لوگوں کا یہ حال بیان فرمایا ہے جو ان واضح اور روشن دلائل کے ہوتے ہوئے پھر شرک کرتے ہیں اور اپنے معبودوں کے ساتھ خدا کی محبت کا سا برتاؤ کرتے ہیں۔ اَنْدَاداً۔ ند کی جمع ہے جس کے معنی مثل اور مشابہ کے ہیں اور یہاں انداد سے مراد اوثان ہیں۔ یعنی پتھر کی وہ مورتیاں جو مشرکین نے انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام کی شکل وصورت پر بنارکھی تھیں اور ان سے محبت اور تعظیم کا وہی معاملہ کرتے تھے جو انہیں خدا سے کرنا چاہیے تھا۔ خداوند تعالیٰ چونکہ خالق ومالک اور محسن ومنعم ہے لہذا اس کی محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ اسی کی عبادت کی جائے اور اسی کے سامنے جھکا جائے، اسی سے مانگا جائے اور اسی کی نذرومنت دی جائے۔ مگر مشرکین یہی معاملات اپنے انداد سے کرتے ہیں جنہیں انہوں نے خدا کے سوا کارساز بنا رکھا ہے۔ ان کی عبادت کو خدا کے تقرب کا ذریعہ سمجھ رکھا ہے۔ ان سے نفع ونقصان کی امید رکھتے ہیں۔ ان کے سامنے اپنی حاجتیں پیش کرتے ہیں ان کے لیے نذریں مانتے اور ان کی خوشنودی اور تعظیم کے لیے بحیرہ، سائبہ چھوڑتے ہیں۔ انهاهی الاوثان التی اتخذوها الهة لتقربهم الی اللّٰه زلفا ورجوا من عندها النفع والضرر وقصدوها بالمسائل ونذروا لها النذر وقربوا لها القرابین وهو قول اکثر المفسرین[1] بعض لوگ کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں انداد اور اوثان واصنام سے پتھر کے تراشیدہ بت مراد ہیں۔ مشرکین انہیں کو سب کچھ سمجھتے تھے اور انہیں کے لیے سب کچھ کرتے تھے۔ مگر یہ سمجھنا نادانی ہے کیونکہ بت تو انہوں نے محض توجہ کی یکسوائی اور یادگار کے طور پر رکھے ہوئے تھے اور ان کے ساتھ عبادت وتعظیم کا جو سلوک کرتے تھے وہ محض اس لیے کرتے تھے کہ وہ ان کے بزرگوں کے مجسمے اور ان کی یادگاریں ہیں اور اس عبادت وتعظیم سے ان کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ ہمارے بزرگوں کی ہمیں خوشنودی حاصل ہوجائے اور وہ ہماری حاجت روائی اور مشکل کشائی کردیں۔ اگر کوئی شخص بت نہ بنائے اور بت کے بغیر ہی اللہ کے نیک بندوں سے محبت وعقیدت اور عبادت وتعظیم کا وہی برتاؤ کرے جو اسے اللہ سے کرنا چاہئے۔ مثلاً اسے عالم الغیب، مالک ومختار، حاجت روا اور مشکل کشا سمجھے اور اس کی خوشنودی کے لیے اس کے نام کی نذریں نیازیں دے اور اس سے نفع ونقصان کی توقع رکھے تو اس شخص نے اس اللہ کے نیک بندے کو خدا کا’نِدْ ‘بنادیا اور اسے اس وحدہ لا شکریک کا مثل اور شریک ٹھہرایا۔
Flag Counter