Maktaba Wahhabi

6 - 263
’’مولانا حسین علی کا سلسلہ نسب راجپوت بھٹی خاندان سے ملتا ہے جو ہندوستان کا ایک مشہور حکمران طبقہ رہا ہے۔‘‘[1] مولانا محمد اسحاق توحیدی لکھتے ہیں: ’’واں بھچراں ضلع میانوالی کا مشہور قصبہ ہے جو میانوالی شہر کی مشرقی جانب قریباً 15 میل کے فاصلہ پر واقع ہے اس قصبہ میں راجپوت قبیلہ کی ایک شاخ بھچر کے زیادہ افراد رہتے ہیں انہی کی مناسبت سےقصبہ کا نام واں بھچراں ہے‘آب وہوا کے لحاظ سے یہ علاقہ گرم وخشک ہے‘زمین ریگستانی اور صحرائی ہے۔[2] مولانا حسین علی رحمۃ اللہ علیہ کا خاندان مذہبی تھا۔اس لیے مذہبی تعلیم(قرآن مجید اور فارسی کی کچھ کتابیں)اپنے والدمحترم حافظ میاں محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کی۔پھر جب آپ ذرا بڑے ہوئے تو موضع سیلوان پڑھنے کے لیے چلے گئے۔یہاں پر فارسی کی باقی ماندہ کتابیں اور عربی کی کچھ کتابیں سبقاً سبقاً پڑھیں اور کچھ مطالعہ کیں۔فنون کی کتابیں مولانا احمد حسن صاحب کانپوری سے پڑھیں۔[3] کچھ کتابیں شادیہ نزد بندیال میں پڑھیں۔اور کچھ کتابیں تلہریاں(جو تھل میں ایک جگہ کا نام ہے)میں مولانا غلام نبی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا سلطان احمد رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھیں اور کچھ کتابیں مولانا محمودرحمۃ اللہ علیہ سے بندیال میں پڑھیں۔[4] پھر اعلٰی تعلیم کے لیے مولانا نے گنگوہ کا سفر کیا۔مولانا محمد حسین نیلوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے تین سندوں سے ایک واقعہ نقل کیا ہے۔ (۱)......مولانا محمد امیر بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ سے[5]‘(۲).....مولانا محمد شاہ جہلمی رحمۃ اللہ علیہ سے[6]‘(۳).....پروفیسر مولانا فضل حق بن مولانا امیر بندیالوی رحمۃ اللہ علیہ نے مولانا حسین علی رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے حضرت مولانا عبدا لرحمان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی زبانی سنا۔ حضرت الوانی رحمۃ اللہ علیہ اپنا واقعہ خود بیان فرمایا کرتے تھے کہ جب میں گنگوہ پہنچا تو میری سادگی اور لباس کو دیکھ کر طلبہ اور اساتذہ نے یہ سمجھا کہ کوئی دیہاتی‘زمیندار مسئلہ پوچھنے کی غرض سے آیا ہو گامگر جب اسباق شروع ہوئے تو میں بھی اسباق سننے کی غرض سے وہاں جا بیٹھا تو مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے مچھ سے دریافت فرمایا کہ بھائی تم یہاں کیسے بیٹھے ہو اورکہاں آئے ہو۔تو میں نے عرض کی کہ میں ضلع میانوالی سے آپ کی خدمت میں حدیث پاک کا دورہ پڑھنے حاضر ہوا ہوں تو
Flag Counter