نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا:
’’کَیْفَ صَنَعْتَ فِيْ اِسْتِلَامِ الْحَجَر؟‘‘
’’تم نے حجر (اسود) کے چھونے کے بارے میں کیسے کیا؟‘‘
میں نے عرض کیا:
’’اِسْتَلَمْتُ وَتَرَکْتُ۔‘‘
’’میں نے (کبھی) چھولیا اور (کبھی چھونا) ترک کیا۔‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’أَصَبْتَ۔‘‘[1]
’’تم نے ٹھیک کیا۔‘‘
امام ابن حبان اس پر درجِ ذیل عنوان تحریر کیا ہے:
[ذِکْرُ الْإِبَاحَۃِ لِلطَّائِفِ حَوْلَ الْبَیْتِ الْعَتِیْقِ اسْتِلَامَ الْحَجَرِ وَتَرْکَہُ مَعًا] [2]
[بیت عتیق کے گرد طواف کرنے والے کے لیے ایک ہی وقت میں حجر (اسود) کو چھونے اور نہ چھونے کے جواز کا ذکر]
مذکورہ بالا روایات سے حجرِ اسود کے متعلق درج ذیل سات باتیں معلوم ہوتی ہیں:
ا: اس پر سجدہ کرنا اور اسے بوسہ دینا۔
ب: اسے ہاتھ سے چھونا اور بوسہ دینا۔
|