Maktaba Wahhabi

223 - 360
کرچکا ہو، تو یقینا اس کا حج پورا ہوگیا اور اس نے اپنے احرام کے تقاضوں کو پورا کرلیا۔‘‘ دونوں حدیثوں کے حوالے سے سات باتیں: ا: پہلی حدیث کے متعلق امام سفیان بن عیینہ کہتے ہیں: ’’یہ سفیان ثوری کی روایت کردہ (احادیث میں سے) بہترین حدیث ہے۔‘‘ امام وکیع کہتے ہیں: ’’یہ حدیث ’’ام المناسک‘‘ ہے۔[1] یعنی اعمال حج کے بیان کرنے میں مرکزی حیثیت کی حامل ہے۔ ب: دونوں حدیثوں سے یہ بات معلوم ہوتی ہے، کہ جس شخص نے فجر سے پہلے صرف رات کے کسی بھی حصے میں عرفات میں وقوف کرلیا، تو اس کا [وقوفِ عرفات] کا رکنِ حج مکمل طور پر ادا ہوگیا۔ جمہور اہلِ علم کی یہی رائے ہے۔ [2] امام ترمذی لکھتے ہیں، کہ عبد الرحمن بن یعمر رضی اللہ عنہ کی حدیث پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور دیگر اہلِ علم کا عمل ہے۔[3] ج: امام خطابی رقم طراز ہیں: ’’اس حدیث[4] سے یہ معلوم ہوتا ہے، کہ جو شخص عرفہ کے دن زوال سے لے کر یوم النحر کے طلوعِ فجر تک عرفات میں [بالکل قلیل وقت بھی] ٹھہر گیا، تو یقینا اس نے حج کو پالیا۔‘‘[5] بعض خراسانیوں کے نزدیک عرفات میں صرف رات کے ٹھہرنے کی کوئی حیثیت
Flag Counter