Maktaba Wahhabi

224 - 360
نہیں، لیکن مذکورہ بالا دونوں حدیثیں ان کی رائے کی تردید کرتی ہیں۔[1] د: مالکیوں کے نزدیک عرفات میں صرف رات کو ٹھہرنے والے کا حج تو ہوجائے گا، لیکن اس کے ذمے دم ہوگا، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رات کے ساتھ دن کے ایک حصے میں بھی وہاں ٹھہرے۔ صرف رات کو ٹھہرنے والا حج کا ایک عمل چھوڑ رہا ہے اور اس کے چھوڑنے پر دم لازم آتا ہے۔ شیخ شنقیطی اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: دیلی رضی اللہ عنہ [2] کی حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد: [فَقَدْ تَمَّ حَجُّہُ] [پس یقینا اس کا حج مکمل ہوگیا] دم کے لازم کرنے میں ان کی مدد نہیں کرتا، کیونکہ [تَمَّ] [پورا ہونے کا] کا لفظ اس بات پر دلالت کرتا ہے، کہ (وقوفِ عرفات میں) کوئی کمی باقی نہیں رہی، کہ دم سے اس کی تلافی کی جائے۔ یہ لفظ جمہور کے مذہب کی تائید کرتا ہے۔ وَالْعِلْمُ عِنْدَ اللّٰہِ تَعَالٰی۔[3] ہ: حضرت مضرِّس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے، کہ عرفات میں نو ذوالحجہ کو دن کے کسی بھی وقت ٹھہرنے سے [وقوفِ عرفات] کا رکن ادا ہوجاتا ہے۔ امام احمد کی یہی رائے ہے۔ جمہور علماء اس ٹھہرنے کو زوال کے بعد ہونا ضروری قرار دیتے ہیں، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے زوال کے بعد ہی وقوف کیا۔[4] امام مالک کے نزدیک عرفات میں صرف دن کو ٹھہرنے والے کا حج صحیح نہیں،[5] لیکن حضرت مضرس رضی اللہ عنہ کی حدیث کے الفاظ: [کہ وہ اس سے پیشتر رات یا دن میں عرفات میں وقوف کرچکا ہو] ان کی رائے کی تائید نہیں کرتے۔
Flag Counter