Maktaba Wahhabi

250 - 360
لوگوں کے نمازِ فجر سے پہلے رمی کرنے کے جواز کے قائل ہیں۔[1] د: حضراتِ احناف، امام مالک اور امام احمد کے نزدیک رمی جمرہ کے وقت کی ابتدا طلوع فجر سے ہوتی ہے۔[2]اس سے پہلے رمی کرنا درست نہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے، کہ ان کے بھیجے ہوئے کمزور لوگ نمازِ فجر کے وقت منیٰ پہنچنے کے بعد رمی کرتے تھے۔ اس رائے کی تائید امام بیہقی کی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے روایت کردہ حدیث سے بھی ہوتی ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی خواتین اور گھر کے ناتواں لوگوں کو مزدلفہ سے منیٰ روانہ کرتے وقت فرمایا: ’’وَأَنْ لَّا یَرْمُوْا الْجَمْرَۃَ إِلَّا مُصْبِحِیْنَ۔‘‘[3] ’’وہ رمی جمرہ صبح کے وقت ہی کریں۔‘‘ ہ: حضراتِ ائمہ نخعی، مجاہد، ثوری اور ابوثور کے نزدیک رمی کے وقت کا آغاز طلوعِ آفتاب سے ہوتا ہے۔ اس سے پیشتر کسی کے لیے بھی رمی کرنا درست نہیں۔ ان کی دلیل امام ابوداؤد کی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے روایت کردہ حدیث ہے،
Flag Counter