Maktaba Wahhabi

293 - 331
محترمہ عائشہ سے ڈیڑھ گھنٹے کا انٹرویو لیا گیا۔ آپ کوریا کی کچھ طالبات کے ہمراہ مکہ معظمہ میں عمرہ کی ادائیگی کے بعد واپسی پر جدہ آئی ہوئی تھیں ۔ جب آپ سے اسلام سے وابستگی کے ابتدائی مراحل کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ آنکھیں بند کرکے کچھ دیر سوچتی رہیں جیسے دل کی گہرائیوں میں چھپی ہوئی کوئی چیز تلاش کررہی ہوں ، پھر آپ نے ایک گہرا سانس لے کر کہا: ’’اسلام سے میری دلچسپی کی داستان مجھے ماضی کے وہ دن یاد دلاتی ہے جو میں نے کوریا میں گزارے۔ میں ایک کٹرقدامت پسند گھرانے سے تعلق رکھتی تھی جو قدیم چینی مذہب کا پیروکار تھا۔دوسری جنگ ِعظیم میں کوریا کو بہت نقصان پہنچا تھا۔ پھر میری امام مہدی وون سے شادی ہوگئی۔ اس وقت ہم دونوں میاں بیوی اسلام سے بہت دور تھے، تاہم مجھے ہمیشہ یہ احساس رہتا تھا کہ ہم حقیقت سے دور ہیں ۔ ’’میرے شوہر نے جاپان کی یونیورسٹیوں میں ادب کی تعلیم حاصل کی تھی۔ طالب علمی کے دور میں انھیں اسلام کے متعلق کچھ معلومات پر مبنی ایک جاپانی مصنف کی کتاب ملی۔ ہم دونوں نے یہ کتاب پڑھ کر محسوس کیا کہ ہماری دلی خواہش ہمیں حقیقی امن وسلامتی کی سمت لے آئی ہے۔ ہم اس ضمن میں جستجو کے دوران عیسائیت، بدھ مت، کنفیوشیت [1]اورشنطومت[2] وغیرہ سے مطمئن نہیں ہوسکے تھے ۔‘‘ ٭چین کادورہ: محترمہ عائشہ نے سلسلۂ گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’جنگ عظیم کا دائرہ وسیع ہونے پر میں اور میرے شوہر 1939ء میں چین منتقل ہوگئے۔ ایک موقع پر گفتگو کے دوران میں ایک چینی آدمی نے ہم سے پوچھا کہ کیا آپ اسلام کے بارے میں کچھ جانتے ہیں ؟ ہم نے نفی میں جواب دیا۔ وہ شخص ہمیں ایک مسجد میں لے گیا جہاں ہمیں عبادت گزاروں اور کچھ دوسرے
Flag Counter