Maktaba Wahhabi

12 - 331
ثابت کرتا ہے اور اس بات کو تسلیم کر لیتا ہے کہ وہی اکیلا ہر شے کا خالق ہے تو اس سے وہ موحد نہیں ہو جاتا جب تک کہ ’’لا اِلٰہ الا الله‘‘ کی شہادت نہ دے اور ساتھ ہی اس بات کا اقرار نہ کرے کہ وہی اِلٰہ ہے جو عبادت کا مستحق ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ ساتھ اس کی وحدانیت اور عام شراکت غیر کا التزام نہ کرے۔ یاد رکھئے لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی اس حقیقی توحید کو نہیں پہچانا جس کی تبلیغ کے لئے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔یہ تو مشرکین عرب بھی کہتے تھے اور اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ صرف ایک اللہ تعالیٰ ہی ہر شے کا خالق ہے مگر اس کے باوجود وہ مشرک تھے،جیسا کہ قرآن کریم کہتا ہے:ترجمہ:ان میں سے اکثر اللہ کو مانتے ہیں مگر اس طرح کہ اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں‘‘(یوسف:۱۰۶)۔ ضروری نہیں کہ جو شخص یہ اقرار کرے کہ:اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق اور رب ہے،وہ شخص اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرتا ہو،اس کے سوا کسی کی طرف دعوت نہ دیتا ہو،اس کے سوا کسی سے ڈرتا نہ ہو اور نہ کسی دوسرے پر بھروسہ کرتا ہو،اُسی کے لئے دوستی اور دشمنی رکھتا ہو،اس کے پیغمبروں کی اتباع کرتا ہو،جس چیز کا اللہ حکم دے اس کی تبلیغ کرتا ہو،جس چیز سے اللہ نے روکا ہے اس سے دوسروں کو روکتا ہو،کیونکہ اکثر مشرکین کا یہ عقیدہ ہے کہ یوں تو اللہ تعالیٰ ہی ہر شے کا خالق ہے مگر وہ اپنے شرکاء کو اللہ تعالیٰ کے ہاں سفارشی مانتے ہیں اس طرح وہ ان کو اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دیتے ہیں۔انہی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:ترجمہ:کیا اس اللہ کو چھوڑ کر ان لوگوں نے دوسروں کو شفیع بنا رکھا ہے؟۔(الزمر)۔ترجمہ:یہ لوگ اللہ کے سوا اُن کی پرستش کر رہے ہیں جو اُن کو نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ نفع اور کہتے یہ ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔ ان مشرکانہ اعمال کے باوجود وہ کہتے ہیں کہ یہ شرک نہیں ہے،یہ اس صورت میں شرک سمجھا جائے گا جب ہم ان کو مدبر امر خیال کریں۔اگر ہم ان کو صرف ذریعہ اور وسیلہ سمجھیں گے تو یہ شرک نہیں ہو سکتا۔حقیقت یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ کی رُو سے یہ شرک ہی ہے۔ وقول اللّٰہ تعالٰی:وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(الذّٰریٰت:۵۶) میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لئے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔ عبادت ایک ایسا جامع اسم ہے جس سے وہ تمام ظاہر اور باطنی اقوال و اعمال مراد ہیں جو اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہیں اور جن پر وہ راضی ہوتا ہے۔علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:جن اُمور کے انجام دینے کا حکم دیا گیا ہے،ان پر عمل پیرا ہونا اور جن سے روکا گیا ہے اُن کو ترک کر دینے کا نام عبادت ہے۔
Flag Counter