Maktaba Wahhabi

308 - 331
کے خوگر افراد پر طاری ہو۔یہ وہی حضرات تھے جنہیں یقین تھا کہ رب ذوالجلال اپنے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرور مدد فرمائے گا اور تمام وعدوں اور توقعات کو پورا کرے گا اور دوسرے گروہ کے بارے میں فرمایا گیا: (ترجمہ)’’اور ایک فرقہ کو اپنی جانوں کا فکر تھا۔‘‘(آل عمران:۱۵۴)۔ ان کو یہ نعمت عظمیٰ نصیب نہ ہوئی کیونکہ وہ جزع فزع،قلق و اضطراب اور خوف و ہراس کا شکار ہو کر اللہ تعالیٰ کے بارے میں اہل جاہلیت کے سے سوئِ ظن اور بدگمانی میں مبتلا ہو گئے ان کے اس سوء ظن کی تصدیق خود اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:(ترجمہ) ’’اللہ تعالیٰ کے متعلق طرح طرح کے جاہلانہ گمان کرنے لگے۔‘‘ دوسرے مقام پر فرمایا:(ترجمہ)’’بلکہ تم نے یہ خیال کیا کہ رسول اور مومن اب کبھی اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر نہ آئیں گے اور یہ چیز تمہارے دِلوں کو بڑی خوشنما معلوم ہوئی اور تم برے برے گمان کرنے لگے اور تم ہلاک ہونے والی قوم تھے۔‘‘(الفتح:۱۲)۔ منافقین کے اس بزدل گروہ نے جب دیکھا کہ وقتی طور پر مشرکین کو غلبہ حاصل ہو رہا ہے تو انہوں نے اس کو آخری فیصلہ سمجھا۔ان کے دلوں میں یہ بات گھر کر گئی کہ اب اسلام اور اہل اسلام کا بالکل خاتمہ ہو جائے گا۔شکوک و شبہات میں گرفتار لوگوں کا یہی حال ہوتا ہے کہ اہل اسلام جب کسی مصیبت میں گھر جاتے ہیں تو ان سے اسی قسم کی لغو گفتگو،اور نامعقول باتیں سرزد ہوتی ہیں۔ فیہ مسائل ٭ برے گمان کی بیشمار قسمیں ہیں جن کا شمار نہیں کیا جا سکتا۔٭ان برے گمانوں سے وہی شخص محفوظ رہ سکتاہے جو اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور اپنے نفس کی معرفت سے بہرہ مند ہو۔ بابُ: مَا جَاءَ فی منکری القدر اس باب میں بتایا گیا ہے کہ تقدیر کا انکار کرنا شریعت اسلامی سے انکار کے مترادف ہے منکرین تقدیر الٰہی کی حیثیت اسلام میں وہی ہے جو مجوسیوں کی ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،وہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’قدریہ اُمت محمدیہ کے
Flag Counter