Maktaba Wahhabi

209 - 331
قوم سے کہاکہ لوگو! اگر تم واقعی اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو تو اس پر بھروسہ کرو،اگرمسلمان ہو۔‘‘(یونس:۸۴)۔ ایک مقام پر اس کی یوں وضاحت فرمائی:(ترجمہ)’’وہ مشرق و مغرب کا مالک ہے،اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے لہٰذا اسی کو اپنا وکیل بنالو۔‘‘(المزمل:۹)۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’توکل صرف دل کا عمل ہے۔‘‘ پیشِ نظر آیت کریمہ کی تشریح میں علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:’’اللہ تعالیٰ نے توکل کو ایمان کی شرط قراردیا ہے،جس سے پتا چلا کہ جس دل میں توکل نہیں،وہاں ایمان نہیں،جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ لوگو! اگر تم واقعی اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو تو اس پر بھروسہ کرو،اگرمسلمان ہو۔ (یونس:۸۴)۔اس آیت کریمہ میں توکل کو اسلام کی صحت کا معیار قرار دیا گیا ہے،پس جس شخص کا ایمان قوی ہوگا اس کا توکل علی اللہ بھی مضبوط ہوگا۔اور اگر خدانخواستہ ایمان کمزور ہوگیا تو توکل کا کمزور ہونا بھی یقینی ہے۔اسی طرح جس کا توکل علی اللہ کمزورہوگااس کا ایمان بھی کمزور ہوگا۔اللہ تعالیٰ اپنے کلام پاک میں کبھی تو توکل اور عبادت کو یکجا بیان فرماتاہے،کبھی توکل اور ایمان کو اور کبھی توکل اور تقویٰ کو اور کبھی توکل اور اسلام کو اور کبھی توکل اور ہدایت کو۔پس معلوم ہوا کہ ایمان اور احسان کے تمام اہم مقامات پرتوکل علی اللہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور یہ کہ اسلام کے تمام اعمال میں توکل کا وہی مقام اور اس کی وہی حیثیت ہے جو بدن انسانی میں سر کی ہے۔جیسے بدن کے بغیر سَر قائم نہیں رہ سکتا اسی طرح ایمان اور اس کے مقامات اور اعمال توکل علی اللہ کے بغیرقائم نہیں رہ سکتے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:جو شخص مخلوق سے امیدیں وابستہ کرلیتا ہے اور مخلوقِ الٰہی پرہی توکل اور بھروسہ کربیٹھتا ہے وہ اپنے مقاصد میں ہرگزکامیاب نہیں ہوسکتا۔وہ مشرک ہے اور مشرک کے متعلق اللہ تعالیٰ کافرمان ہے۔(ترجمہ)’’جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بناتا ہے گویا وہ آسمان سے گرپڑا پھر اسے جانور نوچ لیں گے یا ہوا اس کو دور دراز مکان میں پھینک دے گی۔‘‘(الحج:۳۱)۔ شارح رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ توکل علی اللہ کی دو قسمیں ہیں۔(۱)۔ایسے اُمور میں غیراللہ پر توکل کرنا جو صرف اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں،جیسے وہ لوگ جو فوت شدگان یا طاغوت وغیرہ سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ کسی قسم کی امداد کریں گے یا حفاظت کا فریضہ ادا کریں گے یا رزق وغیرہ دیں گے یا قیامت کے دن سفارش کریں گے،یہ عقیدہ شرکِ اکبرہے۔(۲)۔دوسری قسم یہ ہے کہ ظاہری اسباب و ذرائع پر بھروسہ کرلیا
Flag Counter