Maktaba Wahhabi

215 - 331
یعنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہمارا کارساز ہے ہم اسی پر توکل اور بھروسہ کریں گے جیسا کہ ’’کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہے‘‘(الزمر:۳۹)۔اور جس نے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیا اور اس کو اپنا وکیل بنایا ہے وہ بہت ہی عمدہ اعلی اور ارفع ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے:(ترجمہ)’’اور اللہ تعالیٰ سے وابستہ ہو جاؤ وہ ہے تمہارا مولیٰ بہت ہی اچھا ہے وہ مولیٰ اور بہت ہی اچھا ہے مددگار۔‘‘(الحج:۷۸)۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:’’جو شخص اللہ پر توکل کرے اور اسی کی طرف راجع ہو،اللہ تعالیٰ اس کا کفیل اور کارساز بن جاتا ہے کیونکہ وہی ایک ذات کبریا ایسی ہے جہاں خوف زدہ کو اطمینان حاصل ہوتا ہے اور امن کے متلاشی کو پناہ ملتی ہے۔پس جو شخص اللہ تعالیٰ کا دوست بن جائے،اسی سے امداد کاطالب ہو،اسی پر توکل کرے اور کلی طور پر تمام دنیا سے کٹ کر اللہ کریم سے جڑ جائے اللہ تعالیٰ بھی اس سے محبت کرتا ہے،اس کو اپنی حفاظت،اپنے امان اور اپنی پناہ میں لے لیتا ہے،جو شخص اللہ سے ڈرے اور تقویٰ اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کو امان اور اطمینان کی دولت سے نوازتا اور پھر جس چیز کی بندے کو ضرورت ہوتی ہے اللہ تعالیٰ وہ چیز فراوانی سے اس کو عطا فرما دیتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا یہ واقعہ قرآن کریم میں نقل فرمایا ہے،قرآن کریم کے الفاظ یہ ہیں کہ:(ترجمہ)’’انہوں نے کہا:جلا ڈالو اس(ابراہیم)کو اور مدد کرو اپنے معبودوں کی اگر تمہیں کچھ کرنا ہے۔ہم نے کہا:’’اے آگ ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی(والی)بن جا ابراہیم پر۔وہ چاہتے تھے کہ ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ برائی کریں مگر ہم نے ان کو بری طرح ناکام کر دیا‘‘(انبیاء:۶۸ تا ۷۰)۔ غزوۂ اُحد میں شکست کھانے کے بعد جب قریش مکہ،مدینہ منورہ کی حدود سے باہر نکلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ملی کہ ابوسفیان جو اس وقت لشکر کفار کا سپہ سالار تھا دوبارہ مدینہ پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ستر جانباز سوار صحابہ کرام کو لے کر اس کے مقابلہ کے لئے حمراء الاسد نامی مقام پر قریشی حملہ آوروں کو روکنے کے لئے تشریف لے گئے۔یہ سن کر ابوسفیان حواس باختہ ہو گیا اور وہ اپنے لشکر کو لے کر سیدھا مکہ کی طرف روانہ ہو گیا۔راستے میں ابوسفیان کو عبدالقیس میں سے ایک قافلہ ملا۔ابوسفیان نے پوچھا کہاں جا رہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا:مدینہ جانا چاہتے ہیں۔ابوسفیان بولا:مدینہ جا کرہمارا پیغام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچا دو گے؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ضرور پہنچائیں گے۔ابوسفیان نے یہ پیغام دیا کہ:جب مدینہ پہنچو تو مسلمانوں سے کہنا کہ ہم نے دوبارہ حملہ کرنے کی تیاری مکمل کر لی ہے تاکہ تم سب مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا
Flag Counter