Maktaba Wahhabi

220 - 331
ہے۔اس کی رحمت لازوال سے نااُمیدی اس کی جُودت بے پایاں سے قنوطیت اور اس کی مغفرت لابدی سے صرفِ نظر کر لینے کا یہی نتیجہ ہوا کرتا ہے۔ انسان کو مہلت پر مہلت دیتے جانا،اور اس کے دل سے ایمان کی دولت کو سلب کر لینا،یہ اس بات کی علامت ہے کہ انسان اللہ کے بارے میں بڑا جاہل اور بیوقوف ہے اور اپنے بارے میں خودفریبی میں مبتلا ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ زیر بحث حدیث میں صرف تین کبیرہ گناہوں کا ذکر ہے۔اس کے علاوہ بھی بہت سے کبیرہ گناہ ہیں۔کتاب و سنت میں ان تین کو بہت ہی اہمیت حاصل ہے یہ تمام کبیرہ گناہوں میں سر فہرست ہیں۔محققین علمائے کرام و محدثین عظام کی تصریحات کے مطابق کبیرہ گناہ کے متعلق مندرجہ ذیل اصول سامنے رکھنے چاہئیں کہ:٭ ہر گناہ جس کے متعلق اللہ تعالیٰ جہنم کی وعید سنائے۔٭یا جس کے مرتکب کو ملعون قرار دیا جائے۔٭ یا اللہ تعالیٰ کے غضب اور عذاب کی وعید سنائی جائے۔٭ یا بقول امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ایمان کی نفی کی جائے۔وہ کبیرہ گناہ ہوتا ہے۔٭ وہ بھی کبیرہ گناہ ہے جس کے مرتکب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی برات کا اظہار کر دیں۔٭ یا جس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما دیں کہ یہ ہم میں سے نہیں ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کبیرہ گناہ تقریباً سات سو تک پہنچتے ہیں جن میں سے یہ اکبر الکبائر ہیں لیکن یہ اصول یاد رکھنا چاہیئے کہ استغفار کرنے پر کوئی کبیرہ گناہ کبیرہ نہیں رہتا اور اس پر اصرار کیا جائے تو کوئی صغیرہ گناہ صغیرہ نہیں رہتا۔‘‘ و عن ابن مسعود رضی اللّٰه عنہ قَالَ اَکْبَرُ الْکَبَآئِرِ اَلْاِشْرَکُ بِاللّٰه وَ الْاَمْنُ مِنْ مَّکْرِ اللّٰه وَ الْقُنُوْطُ مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰه وَ الْیَاْسُ مِنْ رُّوْحِ اللّٰه(رواہ عبدالرزاق)۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا،اُس کے مکر سے بے خوف ہونا،اُس کی رحمت اور اس کے کرم سے نااُمید اور مایوس ہونا کبیرہ گناہوں میں سے ہیں۔ زیر بحث حدیث میں خاص طور پر اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ انسان کو خوف اور رجاء کے درمیان رہنا چاہیئے۔جب وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرے تو اُس کی رحمت سے مایوس اور بد دِل نہ ہو بلکہ اُس کی رحمت کی اُمید کا چراغ دِل میں روشن رکھے۔سلف صالحین پسند کرتے تھے کہ صحت میں خوف غالب رہے اور بیماری میں اُمید غالب ہو جائے۔ابوسلیمان الدارانی رحمہ اللہ کا یہی طریقہ اور یہی دستور تھا۔بلکہ وہ فرماتے تھے کہ
Flag Counter