Maktaba Wahhabi

230 - 331
و عن ابی سعید رضی اللّٰه عنہ مرفوعاً اَلَآ اُخْبِرُکُمْ بِمَا ھُوَ اَخْوَفُ عَلَیْکُمْ عِنْدِیْ مِنَ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ قَالُوْا بَلٰی یَا رَسُوْلَ اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم قَالَ الشِّرْکُ الْخَفِیُّ یَقُوْمُ الرَّجُلُ فَیُصَلِّیْ فَیُزَیِّنُ صَلٰوتَہٗ لِمَا یَرٰی مِنْ نَّظرِ رَجُلٍ(رواہ احمد) سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جس کا خوف مجھے تم پر مسیح دجال سے بھی زیادہ ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ ہاں ضرور بتائیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شرک خفی ہے۔وہ اِس طرح کہ کوئی شخص نماز کے لئے کھڑا ہو،پھر اپنی نماز کو محض دکھلاوے کے لئے عمدہ طریق سے ادا کرے۔ صحیح ابن خزیمہ میں محمود بن لبید سے روایت ہے وہ کہتے ہیں ’’ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ اے لوگو! شرک خفی سے بچو‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شرک خفی کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ’’شرک خفی یہ ہے کہ انسان نماز پڑھنے لگے تو دوسروں کے لئے نماز کو اچھی طرح ادا کرے۔‘‘ اس شرک کو خفی اس لئے کہا گیا ہے کہ انسان لوگوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ اس کا یہ عمل خالص اللہ کے لئے ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ بباطن وہ غیر اللہ کے لئے انجام دے رہا ہے،کیونکہ وہ نماز اس لئے ٹھیک ادا کر رہا ہے کہ اُسے لوگ دیکھ رہے ہیں۔شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،وہ کہتے ہیں کہ:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس ترین دَور میں ہم ریاکاری کو شرکِ اصغر سمجھا کرتے تھے۔‘‘ (ابن جریر فی التہذیب)۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’شرک اصغر میں مندرجہ ذیل افعال،اعمال اور اقوال سرفہرست ہیں: ٭ معمولی قسم کی ریاکاری۔٭ کسی کام کو دکھلاوے کی غرض سے اچھا کرنا۔٭غیر اللہ کی قسم اٹھانا۔٭ایک دوسرے کو یہ کہنا ’’وہی ہو گا جو اللہ چاہے اور تم چاہو گے۔‘‘ ٭یہ اللہ تعالیٰ اور آپ کی طرف سے ہے۔٭میں اللہ تعالیٰ اور آپ کے ساتھ ہوں۔٭میرے لئے اللہ تعالیٰ اور آپ کافی ہیں۔٭ اللہ تعالیٰ اور آپ پر ہی میرا اعتماد ہے۔٭اگر اللہ تعالیٰ اور آپ نہ ہوتے تو یہ کام نہ ہوتا۔مندرجہ بالا اُمور بعض اوقات شرکِ اکبر کا مقام بھی حاصل کر لیتے ہیں۔اس میں کہنے والے کے عقیدہ کو بہت بڑا دخل ہے۔‘‘ اس امر میں کسی کو بھی اختلاف نہیں ہے کہ صحت عمل اور اس کی قبولیت میں اخلاص کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور اخلاص کے ساتھ ساتھ عمل کا مطابق سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہونا بھی عظیم ترین شرط ہے۔
Flag Counter