Maktaba Wahhabi

232 - 331
کے پیش نظر کوئی عمل کرے تو یہ بھی شرک کی تعریف میں آتا ہے۔ قولہ تعالٰی مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَھَا الدُّنْیَا نُوَفِّ اِلَیْھِمْ اَعْمَالَھُمْ فِیْھَا وَ ھُمْ فِیْھَا لَا یُبْخَسُوْنَ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ اِلَّا النَّارُ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْھَا وَ بٰطِلٌ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(سورۃ ھود:۱۵تا۱۶) جو لوگ بس اِسی دُنیا کی زندگی اور اس کی خوشنمائیوں کے طالب ہوتے ہیں ان کی کارگزاری کا سارا پھل ہم یہیں ان کو دے دیتے ہیں اور اس میں اُن کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی۔مگر آخرت میں ایسے لوگوں کیلئے آگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔(وہاں معلوم ہو جائے گا کہ)جو کچھ اُنہوں نے دنیا میں بنایا وہ سب ملیا میٹ ہو گیا اور اب ان کا سارا کیا دھرا محض باطل ہے۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ اس میں اور اس سے پہلے کے ترجمہ باب میں کیا فرق ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان دونوں کے درمیان عموم خصوص مطلق کی نسبت ہے۔یہ دونوں حقیقت میں مشترک ہیں کہ جب انسان اپنے کسی عمل سے لوگوں کی نظر میں اپنے لئے تزین و تصنع اور ثنا و توصیف کی توقع رکھے تو،جیسا کہ پہلے باب میں منافقین کے سلسلے میں گزر چکا ہے،یہ ریاکاری ہے۔لوگوں کے سامنے اطہارِ تصنع کر کے طلب ِ دنیا کرنا اور ان سے مدحت و تکریم کے خواہاں ہونا بھی اسی ذیل میں آتا ہے۔اس نے اگرچہ نیک عمل کیا مگر ریاکاری اس میں تفریق پیدا کر دے گی۔کیونکہ اس سے اُس نے ساز و سامانِ دنیا کی تمنا کی۔مثلاً حصولِ مال کے لئے جہاد کیا،جیسا کہ حدیث میں ہے:’’بندۂ دینار ہلا ک ہو گیا۔‘‘ یا غنیمت اور دیگر چیزوں کو حاصل کرنے کی غرض سے میدانِ جہاد میں نکلا۔ اس ترجمہ اور اس سے بعد کے ترجمہ سے مصنف رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کے لئے کوئی عمل کرنا شرک ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کمالِ توحید کے منافی ہے اور اس سے ذخیرۂ اعمال ضائع ہو جاتا ہے۔اعمال کے معاملے میں مفادِ دنیا کے حصول کی طلب کا جذبہ دِل میں پیدا کرنا بہت بڑی ریاکاری ہے اور ایسے شخص کے کردار پر دُنیا مسلط ہو جاتی ہے جس سے محفوظ رہنے کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی اور مومن کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ اس قسم کے اُمور سے ہمیشہ دامن کشاں رہتا ہے۔
Flag Counter