Maktaba Wahhabi

258 - 331
ان کے اصحاب میں کثیر علماء نے اس موضوع پر وافر ذخیرہ چھوڑا ہے۔ اہل بدعت کی کثرت،اور مختلف آراء کے باوجود ان پاکباز لوگوں نے سنت خیرالوریٰ کو بالکل پاک و صاف اور منزہ رکھنے میں اپنی عزیز عمریں کھپا دیں۔فجزاھم اللّٰه احسن الجزاء۔ و فی صحیح البخاری قَالَ عَلِیٌّ حَدِّثُوْا النَّاسَ بِمَا یَعْرِفُوْنَ اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّکَذَّبَ اللّٰه وَ رَسُوْلُہٗ صحیح بخاری میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول مذکور ہے کہ لوگوں کو وہ باتیں سناؤ جنہیں وہ پہچانیں۔کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلا دیا جائے؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے زیر نظر جملہ اِرشاد فرمانے کی ضرورت اس لئے محسوس فرمائی کہ ان کے دَورِ خلافت میں لوگ احادیث بیان کرنے میں احتیاط سے کام نہیں لیتے تھے،وعظ و ارشاد میں عام قصے کہانیاں بیان کرتے وقت ایسی ایسی باتیں احادیث کے نام سے بیان کرنا شروع کر دی تھیں جن کا کوئی اصل نہ تھا۔لوگوں نے بعض روایات کو بالکل عجوبہ خیال کیا اور ان کی تردید بھی کی،تاہم ان میں بعض صحیح روایات بھی بیان کی جاتی تھیں۔چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے واعظین کو ہدایات جاری فرمائیں کہ وعظ و ارشاد میں صرف وہ احادیث بیان کی جائیں جن کی صحت پر یقین ہو،اور جن سے ایک عام آدمی کو دین کے سمجھنے میں مدد ملے۔جیسے حلال و حرام کی وضاحت کرنا،جس کا ہر شخص مکلف ٹھہرایا گیا ہے۔بالکل گہرے اور پیچیدہ مسائل کو زیر بحث نہ لایا جائے جن سے ایک عام آدمی حق کو قبول کرنے میں پس و پیش کرے اور جو اس کو تکذیب کی سرحدوں میں پہنچانے کا موجب بنتے ہوں۔بالخصوص وہ باتیں ہرگز بیان نہ کی جائیں جن میں اختلاف پایا جاتا ہے اور جدل و نزاع کا موجب بنتی ہیں۔ شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی بھی یہی عادت تھی کہ وہ ایسے مسائل بیان فرماتے جن کا تعلق انسان کے دین،عبادات اور معاملات سے ہوتا تھا،اور جن کا جاننا ہر شخص کے لئے ضروری ہے۔عام لوگوں کو ابن جوزی کی کتب مثلاً المنعش،المرعش،اور تبصرہ کے مطالعہ سے روکا کرتے تھے،کیونکہ ان میں ضروری اور انفع اُمور سے اعراض کیا گیا ہے اور ایسی چیزیں درج کی گئی ہیں جن کا عقیدے سے کوئی علاقہ نہیں ہے۔ امیر المؤمنین سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ واعظین کو عام قصے کہانیاں بیان کرنے سے روکا کرتے تھے کیونکہ یہ لوگ احتیاط سے کام نہیں لیتے تھے۔سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:’’خود امیر یا امیر کا نمائندہ ہی
Flag Counter