Maktaba Wahhabi

270 - 331
افسوس ہے کہ آج کل عوام بیت اللہ کی قسمیں اٹھانا اور اس سے ایسا سوال کرنا جسے صرف اللہ تعالیٰ ہی پورا کر سکتا ہے،جیسے قبیح عمل کا ارتکاب کرتے ہیں۔ہر عقلمند،اور صاحب بصیرت شخص کے سامنے یہ مسئلہ واضح ہے کہ بیت اللہ نہ کسی کو نفع دے سکتا ہے اور نہ کسی کو ادنیٰ سی مصیبت میں مبتلا کر سکتا ہے۔اللہ کریم نے تو صرف اس کا طواف کرنا اور اس کے اندر عبادت کرنا جائز قرار دیا ہے اور اس کو اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے قبلہ مقرر فرمایا ہے۔بیت اللہ کا طواف کرنا جائز اور اس کے نام کی قسم اٹھانا اور اس سے دعا و التجاء کرنا حرام ٹھہرا دیا ہے۔لہٰذا ہر عقلمند شخص کو ان اُمور میں جو بیت اللہ میں جائز،اور بعض ممنوع ہیں فرق کرنا ضروری ہے اگرچہ ساری دُنیا مخالف اور دشمن ہو جائے۔ انسان کتنی بھی تدبیریں سوچے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسان کا اِرادہ،اللہ کریم کے ارادے کے تحت اور تابع ہے۔انسان کو اپنے ارادے کے انجام دینے کی قطعاً قدرت نہیں ہے جب تک کہ اللہ کریم نہ چاہے۔اور وُہی کام ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔جیسے فرمایا:’’اور تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک اللہ ربُّ العالمین نہ چاہے۔‘‘(التکویر:۲۹)۔ایک دوسرے مقام پر اِرشادِ الٰہی ہے:’’یہ ایک نصیحت ہے،اب جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف جانے کا راستہ اختیار کر لے اور تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک کہ اللہ نہ چاہے۔یقینا اللہ بڑا علیم و حکیم ہے۔‘‘ ان آیاتِ قرآنیہ اور احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم سے،قدریہ،اور معتزلہ کی تردید ہوتی ہے۔یہ دونوں فرقے تقدیر الٰہی کے منکر ہیں۔ان گمراہ فرقوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور مشیت کے خلاف،انسان کام کر سکتا ہے۔ان کے اس باطل عقیدہ کی تردید آئندہ صفحات میں تفصیل سے آرہی ہے۔ان شاء اللہ تعالیٰ۔ یہ فرقے اُمت محمدیہ کے مجوسی ہیں۔اہل سنت والجماعت کا وہی عقیدہ اور موقف ہے جسے قرآن و حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔وہ یہ ہے کہ شریعت کے مخالف اور موافق اعمال و اقوال میں انسان کے تمام ارادے اللہ تعالیٰ کے ارادے کے تابع ہیں۔انسان کے وُہ ارادے جو شریعت مطہرہ کے موافق ہیں اللہ کریم ان سے راضی اور خوش ہوتا ہے اور وہ عزائم جو شریعت اسلامیہ سے متصادم ہیں ان کو اللہ ناپسند کرتا ہے۔اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:(ترجمہ)’’اگر تم کفر کرو تو اللہ تم سے بے نیاز ہے لیکن وہ اپنے بندوں کے لئے کفر کو پسند نہیں کرتا۔‘‘(الزمر:۷)۔ زیرنظر حدیث میں اس بات کی وضاحت ہے کہ کعبہ کی قسم اٹھانا شرک ہے کیونکہ آنے والے یہودی نے
Flag Counter