Maktaba Wahhabi

284 - 331
یہ کہتا ہے کہ ’’میں اسی کا مستحق ہوں اور میں نہیں سمجھتا کہ قیامت کبھی آئے گی لیکن اگر واقعی میں اپنے رب کی طرف پلٹایا گیا تو وہاں بھی مزے کروں گا‘‘ حالانکہ کفر کرنے والوں کو لازما ہم بتا کر رہیں گے کہ وہ کیا کر کے آئے ہیں۔اور انہیں ہم بڑے گندے عذاب کا مزا چکھائیں گے۔ اس آیت کریمہ کے مفہوم کو واضح کرنے کے لئے شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے کتاب التوحید میں مفسرین کی عبارت کو نقل فرمایا ہے جیسے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ۔یہ عبارتیں اتنی واضح ہیں کہ ان کو پڑھ کر انسان کی بالکل تشفی ہو جاتی ہے۔لہٰذا ہم ان عبارتوں پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ قال مجاھد رحمہ اللّٰه ھٰذَا بِعَمَلِیْ وَ اَنَا مَحْقُوْقٌ بِہٖ و قال ابن عباس رضی اللّٰه عنہ یُرِیْدُ مِنْ عِنْدِیْ وقولہ قَالَ اِنَّمَآ اُوْتِیْتُہٗ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ مجاہد رحمہ اللہ نے ’’ھٰذا لی‘‘ کا مفہوم یہ ادا کیا ہے کہ ’’میں اپنے اعمال کی وجہ سے ان انعامات کا حقدار تھا۔‘‘ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ’’ھٰذا لی‘‘ کا مفہوم یہ بیان فرمایا ہے کہ ’’یہ انعامات میری ہی کوشش کا ثمرہ اور نتیجہ ہیں۔‘‘ قتادہ رحمہ اللہ نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا فرمایا ہے ’’چونکہ میں مختلف علوم و فنون کا ماہر تھا اس لئے ان کی وجہ سے مجھے یہ سب کچھ ملا ہے۔‘‘ دوسرے علمائے کرام نے یہ فرمایا ہے کہ ’’چونکہ اللہ کو میرے بارے میں یہ علم تھا کہ میں اس کا اہل اور حقدار ہوں لہٰذا مجھے یہ سب کچھ دے دیا گیا ہے۔‘‘ مجاہد رحمہ اللہ نے جو معنی بیان کئے تھے وہ دوسرے علما کے مفہوم کے خلاف نہیں۔جس قدر مفہوم بیان کئے گئے ہیں ان میں کوئی اختلاف نظر نہیں آتا بلکہ ایک ہی معنی واضح ہوتے ہیں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بنی اسرائیل میں تین قسم کے شخص تھے۔ایک کوڑھی،ایک گنجا اور ایک اندھا۔اللہ تعالیٰ نے ان کو آزمانا چاہا تو اُن کی طرف فرشتہ بھیجا۔فرشتہ کوڑھی کے پاس آیا اور پوچھا تجھے سب سے زیادہ کیا پسند ہے؟ اُس نے جواب دیا اچھا رنگ اور اچھی چمڑی۔اور یہ کہ یہ بیماری مجھ سے رفع ہو جائے جس کی وجہ سے لوگ مجھ سے کراہت کرتے ہیں۔فرشتے نے اُس پر ہاتھ پھیرا اور اس کی بیماری رفع ہو گئی۔اب اُسے عمدہ رنگ بھی عطا کیا گیا اور
Flag Counter