Maktaba Wahhabi

301 - 331
یہ ہیں:’’میں تیرے اُس چہرے کے نور کی پناہ لیتا ہوں جس سے سب اندھیرے روشن ہو جائیں اور دنیا اور آخرت کے کام سنور جائیں،میں تیری پناہ لیتا ہوں کہ مجھ پر تیرا غضب نازل ہو یا تیری ناراضی مجھ پر اُترے تیری ہی چوکھٹ ہے تو مجھ سے راضی ہو جا اور اللہ کی توفیق کے سوا گناہ سے بچنا ہے اور نہ نیکی کی طاقت ہے۔‘‘ سوال: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اذکار میں مندرجہ ذیل دعا بھی موجود ہے:’’اے اللہ تو سب سے زیادہ ذکر کئے جانے اور سب سے زیادہ عبادت کئے جانے کا مستحق ہے۔‘‘ اس دعا کے آخری الفاظ یہ ہیں:’’میں تیرے چہرے کے نور کی پناہ لیتا ہوں جس سے سب آسمان اور زمین روشن ہیں۔‘‘ یہ دُعا ان الفاظ پر ختم ہوتی ہے:’’میں اللہ کریم کے چہرے اور اللہ عظیم کے نام اور اس کے پورے کلمات کی پناہ لیتا ہوں موت اور ڈسنے والی چیزوں کی برائی سے اور اے رب ہر اس چیز کی برائی سے جو تو نے پیدا کی اور اس دن کی برائی سے اور اس کے بعد کی برائی سے اور دنیا اور آخرت کی برائی سے۔احادیث مرفوعہ میں صحیح اور حسن اسناد سے ان ادعیہ کے علاوہ بھی دعائیں مذکور ہیں جن میں جنت کی طلب کا ذکر نہیں ہے ان کا جواب کیا ہو سکتا ہے؟ جواب:ان ادعیہ ماثورہ میں اگرچہ بظاہر جنت کا سوال نہیں لیکن ایسے اعمال و افعال کا ذکر موجود ہے جو جنت کے قرب کا ذریعہ اور وسیلہ بنتے ہیں اور ایسے اعمال سے اجتناب کا سوال بھی موجود ہے جو دخولِ جنت کے لئے رکاوٹ ثابت ہوں۔پس اِن ادعیہ میں اللہ تعالیٰ کے چہرے اور اُس کے نور کے واسطہ سے اُن ہی اعمال کے انجام دینے کی توفیق مانگی گئی ہے جو جنت کے قرب کا ذریعہ ہیں۔جیسا کہ ایک صحیح حدیث میں یہ دعا مذکور ہے:’’اے اللہ میں تجھ سے جنت کا سوال کرتا ہوں اور اُن اقوال و اعمال کا جو مجھے جنت کے قریب کر دیں اور میں تیری پناہ لیتا ہوں آگ سے اور اُن اقوال و اعمال سے جو آگ کے قریب کریں۔‘‘ یہ دُعائیں ان لوگوں کی دعاؤں سے بالکل مختلف حیثیت رکھتی ہیں جو صرف دنیا کا مال و متاع رزق میں وسعت اور دنیاوی زیب و زینت کی دعائیں کرتے ہیں۔بلا شبہ دنیا کا مال و متاع اگر نجات اُخروی کے لئے استعمال کیا جائے تو بہت ہی مستحسن عمل ہے،جس کا ان ادعیہ میں ذکر آگیا ہے۔پس اس میں شک نہیں کہ اللہ کریم کے نام سے صرف دنیاوی حوائج طلب کرنے کے بارے میں یہ حدیث ممانعت پر دلالت کرتی ہے۔لہٰذا ثابت ہوا کہ زیرنظر حدیث اور ان مذکورہ ادعیہ میں کوئی تعارض،تناقض اور اختلاف نہیں ہے۔واللہ اعلم۔ زیر بحث حدیث اُن احادیثِ متواترہ میں سے ایک ہے جن میں اللہ تعالیٰ کے چہرے کا اثبات پایا جاتا ہے یہ صفت کمال ہے اور اس کا انکار کرنا ایسا ہی ہے جیسے کسی ناقص چیز سے اللہ کریم کو تشبیہ دی جائے جیسا کہ
Flag Counter