Maktaba Wahhabi

31 - 331
(۲)۔ قَانِتًا:شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ زندگی کو اطاعت الٰہی میں تسلسل و دوام کے ساتھ گزار دینے کا نام قنوت ہے۔ (۳)۔ إِنَّهکَانَ حنیْفًاَ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:جو شخص اللہ کی طرف پوری طرح متوجہ ہو اور ما سوٰی اللہ سے منہ موڑلے،اسے اَلْحَنِیْفُ کہتے ہیں۔ (۴)۔ وَلَمْ یکُ مِنَ الْمُشْرِکِیْن:جناب ابراہیم علیہ السلام اخلاص اور توکل جیسے عظیم عمل میں یکتا و فردا تھے اور سچائی کی اعلیٰ منزل پر فائز تھے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ شرک کی الآئشوں سے پاک اور اس کی حدود سے دور تھے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:(ترجمہ)جب انہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا ’’ہم تم سے اور تمہارے ان معبودوں سے جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پوجتے ہو قطعی بیزار ہیں۔ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کیلئے عداوت ہوگئی اور بیر پڑ گیا جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لاؤ‘‘(الممتحنہ:۴)۔ اللہ تعالیٰ نے جناب ابراہیم علیہ السلام کا وہ مشہور قول بھی نقل کیا جو انہوں نے اپنے باپ آذر سے کہا تھا:(ترجمہ)’’میں آپ لوگوں کو بھی چھوڑتا ہوں اور اُن ہستیوں کو بھی جنہیں آپ لوگ اللہ کے علاوہ پکارا کرتے ہیں۔میں تو اپنے رب ہی کو پکاروں گا۔اُمید ہے کہ میں اپنے رب کو پکارکے نامراد نہ رہوں گا۔پس جب وہ ان لوگوں سے اور ان کے معبودان باطلہ سے جدا ہو گیا تو ہم نے اس کو اسحاق(علیہ السلام)اور یعقوب(علیہ السلام)جیسی اولاد دی اور ہر ایک کو نبی بنایا۔‘‘(سورۃ مریم)۔ جناب ابراہیم علیہ السلام نے شرک اور مشرکین سے بیزاری کا اظہار،ان سے عداوت اور ان کے کافرانہ عقائد سے انکار کر کے اور ان سے دشمنی کر کے تحقیق توحید کی وہ تصویر کھینچی ہے جس کی مثال پیش کرنا ممکن نہیں۔ زیر بحث آیت اِنَّ اِبْرٰھِیْمَ کَانَ اُمَّۃً سے یہ بات وضح ہوتی ہے کہ اہل توحید کو اپنی قلت ِ تعداد پر گھبرانا نہ چاہیے۔ قولہ:قَانِتًا لِّلّٰہ یعنی سیدنا ابراہیم علیہ السلام نہ تو بادشاہوں کے سامنے جھکتے تھے اور نہ فضول خرچ تاجروں کے حضور گردن کو خم کرتے تھے۔ قولہ:حَنِیْفًا یعنی ابراہیم علیہ السلام فریب خوردہ عُلماء کی طرح اِدھر اُدھر جھک جانے کے قائل نہ تھے۔ وقال:وَالَّذِیْنَ ھُمْ بِرَبِّھِمْ لَایُشْرِکُوْنَ(المومنون:۵۹)اور وہ لوگ جو اللہ کیساتھ شرک نہیں کرتے۔
Flag Counter