Maktaba Wahhabi

320 - 331
آیت میں جن قسموں کی ممانعت کی گئی ہے اُن کے متعلق مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ جاہلیت کی قسمیں ہیں۔مجاہد کے اس قول کی تائید وہ روایت کرتی ہے جو امام احمد رحمہ اللہ نے سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے کی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:’’اسلام میں کوئی حلف نہیں،اور جاہلیت کی تمام قسموں کو اسلام نے مزید سخت کر دیا ہے۔‘‘ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اسلام ایسا صاف ستھرا اور نکھرا ہوا مذہب ہے جسے جاہلیت کی قسموں کی قطعاً ضرورت اور احتیاج نہیں ہے کیونکہ اسلام سے تمسک اور اس پر عمل کی دیواریں استوار کرنا،انسان کو زمانہ جاہلیت کی تمام چیزوں سے محفوظ کر لیتا ہے۔اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ’’تم جو کچھ کرتے ہو،اللہ اُس کو جانتا ہے‘‘ ان لوگوں کے لئے سخت تہدید اور وعید پنہاں ہے جو قسم کھانے کے بعد،اُسے توڑ دیتے ہیں۔ سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی شخص کو ایک بڑی فوج یا چھوٹے لشکر پر امیر مقرر کرتے تو اُسے اللہ سے تقوی اور اپنے ماتحت لشکر کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کی بطورِ خاص وصیت فرماتے۔پھر فرماتے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اُسی کا نام لے کر غزوہ کرو اور ہر شخص سے جنگ کرو جو اللہ تعالیٰ سے کفر کا مرتکب ہوتا ہے۔غزوہ کرو(اور یاد رکھو)کہ نہ خیانت کرنا،نہ عہد و پیمان توڑنا،نہ کسی کو مثلہ کرنا اور نہ بچوں کو قتل کرنا۔اور جب مشرک دشمن سے آمنا سامنا ہو تو اُس کے سامنے تین شرطیں پیش کرنا۔اگر ان میں سے ایک بھی قبول کر لے تو اُسے منظور کر لینا۔پھر جنگ سے رُک جانا۔اسلام کی طرف دعوت دینا،اگر اُسے قبول کر لیں تو اس کو منظور کر لینا اور پھر انہیں دارالکفر سے دارُالسلام یعنی مہاجرین کے مقام(مدینہ طیبہ)کی طرف ہجرت کرنے کی دعوت دینا اور یہ بتانا کہ اگر یہ لوگ ہجرت کریں گے تو ان کو وہ سب حقوق حاصل ہوں گے جو مہاجرین کو حاصل ہیں اور جو بار مہاجرین کو برداشت کرنا پڑتا ہے اُنہیں بھی برداشت کرنا ہو گا۔اگر ہجرت سے انکار کریں تو پھر یہ لوگ اُن بدوی مسلمانوں کی طرح ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ کا حکم جاری ہوتا ہے اور ان کو مالِ غنیمت اور مالِ فئ میں سے حصہ نہیں ملے گا بجز اُس کے کہ وہ بھی مسلمانوں کے ساتھ جہاد میں شریک ہوں۔اگر وہ اسلام لانے سے انکار کریں تو پھر اُن سے جزیہ طلب کرنا۔اگر جزیہ دینے پر راضی ہو جائیں تو قبول کر لینا اور جنگ سے رُک جانا۔اور اگر وہ جزیہ دینے سے بھی انکار کریں تو پھر اللہ تعالیٰ سے مدد مانگ کر ان سے جنگ کرنا۔اور اگر تم کبھی کسی قلعہ بند دُشمن کا محاصرہ کر لو اور دُشمن یہ چاہے کہ تم اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذمہ لے لو تو ایسا ہرگز نہ کرنا بلکہ اپنا اور اپنے ساتھیوں کا ذمہ لے لینا کیونکہ اگر تم اپنا یا اپنے ساتھیوں کا ذمہ توڑ دو گے تو اس کا گناہ بہرحال اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ توڑنے سے ہلکا
Flag Counter